فلمی صنعت کا دورِ عروج اور کراچی کے چند فلم اسٹوڈیو

53 تعبيرية منگل 21 فروری‬‮ 3202 - (سپہر 5 بجکر 93 منٹ)

شیئر کریں:

فلمی صنعت کا دورِ عروج اور کراچی کے چند فلم اسٹوڈیو تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں‌ جب فلمی صنعت کی بنیاد رکھی گئی اور فلم سازی کا آغاز ہوا تو نگار خانے بھی قائم کیے گئے جن سے وابستہ آرٹسٹوں اور تکنیکی عملے نے اپنے فن اور ہنر کو خوب آزمایا اور فلم انڈسٹری کو اس کے پیروں پر کھڑا کیا۔ تیری یاد کو پاکستان کی پہلی فلم قرار دیا جاتا ہے۔

تقسیمِ ہند سے قبل بھی یہاں فلم اسٹوڈیوز موجود تھے، لیکن قیامِ‌ پاکستان کے بعد یہاں جو فلمی اسٹوڈیوز بنائے گئے، وہ ڈیڑھ درجن کے قریب تھے۔ ان میں کراچی شہر میں پانچ اور لاہور میں بارہ فلم اسٹوڈیوز تھے جن میں سے پانچ تقسیم سے پہلے کے تھے۔

فلم سازی کے لیے ضروری سامان اور تمام لوازمات کے ساتھ ماہر اور تجربہ کار عملہ ہی کسی بھی فلم کو اسٹوڈیو مکمل کرتا ہے۔ یہ فلم اسٹوڈیوز کیمرہ، ساؤنڈ اور لائٹوں کے علاوہ ڈبنگ اور ریکارڈنگ کی سہولت، فلم پروسیسنگ کی لیبارٹری اور انڈور شوٹنگ کے لیے مختلف قسم کے سیٹ لگانے کے فلور سے آراستہ ہوتے ہیں۔

بعض فلم اسٹوڈیوز میں بڑے پیمانے پر شوٹنگ کا بندوبست بھی ہوتا تھا اور وسیع احاطے میں‌ کھیت، مصنوعی نہر اور باغ وغیرہ بھی بنائے جاتے تھے جہاں فلم کی ڈیمانڈ کے مطابق منظر اور گیتوں‌ کی عکس بندی کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ مختلف کاسٹیوم، ملبوسات کی دست یابی یقینی بنانے کے ساتھ ایکسٹرا اداکاروں‌ سے بھی رابطہ رکھا جاتا تھا۔ انہی اسٹوڈیوز میں فلم سازوں اور تقسیم کاروں کے دفاتر بھی ہوتے تھے۔

یہاں ہم آپ کی دل چسپی کے لیے کراچی کے چند فلمی اسٹوڈیوز کا تذکرہ کررہے ہیں جو آج فلم انڈسٹری کی تاریخ کا حصّہ ہیں۔ کراچی میں فلمی سرگرمیوں کا آغاز 1952ء میں ہوا لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے لاہور جیسی ترقی نہ ہو سکی۔ یہاں بننے والی پہلی فلم ہماری زبان 1955 کی تھی۔ پہلی سندھی، پشتو اور گجراتی فلمیں بھی یہیں بنائی گئیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے دورِ عروج میں کراچی میں پانچ فلم اسٹوڈیوز موجود تھے۔

قیصر اسٹوڈیو کراچی شہر میں‌ پہلا باقاعدہ نگار خانہ ‘قیصر اسٹوڈیو’ کے نام سے بنایا گیا تھا۔ یہ شہر کے مشہور علاقے ماری پور میں بنایا گیا تھا لیکن صرف دو سال بعد ہی اسے بند کر دیاگیا تھا۔

کراچی اسٹوڈیو پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد 1948ء کے فلم ساز اور پہلے فلم اسٹوڈیو ‘پنچولی آرٹ اسٹوڈیو’ کے منیجر دیوان سرداری لال جب ہجرت کے اوّلین دنوں میں‌ فسادات کے بعد لاہور سے لٹ پٹ کر کراچی پہنچے تو یہاں ‘کراچی اسٹوڈیو’ کے نام سے ایک فلمی نگار خانہ بنانے کی کوشش کی۔ 1953ء میں جیل روڈ پر ایک بین الاقوامی نمائش ہوئی تھی جس میں چین کے پویلین کو لے کر فلور بنائے گئے تھے۔ اسی نگار خانے میں 9 اگست 1953ء کو فلم "سدا سہاگن” کی افتتاحی تقریب ہوئی۔ اس طرح دیوان سرداری لال کو لاہور کے بعد کراچی کی پہلی فلم بنانے میں اہم کردار ادا کرنے کا موقع ملا لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہیں‌ دیا اور انھیں اپنا آبائی وطن چھوڑ کر بھارت جانا پڑا۔

ایسٹرن اسٹوڈیوز 1953ء میں کراچی کے علاقے منگھو پیر میں ہارون فیملی نے ‘ایسٹرن اسٹوڈیوز’ کا آغاز کیا تھا۔ اس فلم اسٹوڈیو کا ساز و سامان مغربی ممالک کی طرف سے غریب ممالک کی فنی اور اقتصادی امداد کے کولمبو پلان کے تحت ملا تھا۔ اس نگار خانے میں چار شوٹنگ فلور، ریکارڈنگ اور سنیما ہال کے علاوہ ایک لیبارٹری بھی تھی۔

ماڈرن اسٹوڈیوز 1967ء میں کراچی میں منگھو پیر سائٹ ایریا ہی میں ‘ماڈرن اسٹوڈیو’ کا افتتاح بھی ہوا۔ اس نگار خانے میں دو شوٹنگ فلور، ایک ریکارڈنگ اور سنیما ہال اور ایک لیبارٹری بھی تھی۔ یہاں پہلی گجراتی فلم ماں تے ماں (1970)، پہلی پشتو فلم ’یوسف خان شہر بانو (1970)، پہلی پاکستانی انگریزی فلم بنائی گئی۔

انٹرنیشنل اسٹوڈیوز 1972ء میں جدید سہولیات سے آراستہ ‘انٹرنیشنل اسٹوڈیو’ کا آغاز ایک اشتہاری کمپنی کے مالک سی اے رؤف نے کیا۔ یہاں دو شوٹنگ فلور، ریکارڈنگ اور سمیما ہال اور ایک لیبارٹری بھی بنائی گئی تھی۔