ہندوستان کی مرفّہُ الحال ریاست حیدرآباد دکن اور سلطانُ‌ العلوم

5 تعبيرية جمعرات 12 جنوری‬‮ 3202 - (دوپہر 3 بجکر 85 منٹ)

شیئر کریں:

ہندوستان کی مرفّہُ الحال ریاست حیدرآباد دکن اور سلطانُ‌ العلوم ہندوستان کی مرفّہُ الحال ریاست حیدرآباد دکن دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ رقبہ اور آبادی کے ساتھ اپنے حکم راں میر عثمان علی خان کی ثروت مندی کے لیے بھی مشہور رہی ہے۔

برطانوی راج کے خاتمے پر تمام آزاد ریاستیں پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہو گئی تھیں، لیکن دکن جو مغلوں کے دورِ آخر ہی سے ہندوستان میں‌ خودمختار اور خوش حال ریاست سمجھی جاتی تھی، اس کے آخری نظام میر عثمان علی خان نے اپنی خود مختار حیثیت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اسے سلطنتِ آصفیہ بھی کہا جاتا تھا بھارت نے اس ریاست کو بزورِ طاقت نظام سے چھین لیا تھا۔

میر عثمان علی خان اپنے زمانے میں‌ دنیا کے چند امیر ترین افراد میں‌ شمار ہوتے تھے۔ انھوں نے تقسیم کے بعد مختلف ذرایع سے خطیر رقوم پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے منتقل کی تھیں۔ اسی دکن میں‌ تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما اور بانیِ پاکستان کے اہم رفیق بہادر یار جنگ نے پرورش پائی تھی۔ وہ شعلہ بیاں مقرر اور زبردست خطیب تھے۔ نواب بہار یار جنگ نے ایک تقریر میں خود مختاریٔ سلطنتِ آصفیہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے دنیا کے کئی ممالک سے اس کا موازنہ کیا تھا جو حقائق اور معلومات پر مبنی ہے۔

اس تقریر سے چند پارے ہم یہاں نقل کررہے ہیں جو ہندوستان اور دکن کی تاریخ کے طالبِ علموں کے لیے معلومات افزا ثابت ہوں گے۔ ملاحظہ کیجیے۔

"کسی سلطنت و مملکت کا جب ہم دوسری سلطنت یا مملکت سے مقابلہ کرتے ہیں تو اس تقابل میں چند ہی چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ رقبہ مملکت، آبادی، رقبہ آبادی کے لحاظ سے فی مربع میل آبادی کا تناسب، آمدنی، اور اس کے ذرائع و امکانات، تعلیم و شائستگی وغیرہ۔ اور اب بیسویں صدی میں فوجی و جنگی طاقت سب سے زیادہ قابلِ لحاظ چیز بن گئی ہے۔”

"دنیا کے جغرافیہ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوجائے گا کہ اس وقت جو ممالک دنیا کی بساط پر سب سے اہم مہروں کا پارٹ ادا کررہے ہیں ان میں بھی اکثروں سے حیدرآباد امتیازاتِ خاص رکھتا ہے۔ جب ہم کسی ملک کی عظمت و بزرگی کا تخیل کرنے لگتے ہیں تو سب سے پہلا اور اہم سوال جو کسی شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ اس کے رقبہ و حکومت کا خیال ہے، آج بھی سلطنتِ برطانیہ کی عظمت سب سے پہلے اس خیال سے پیدا کی جاتی ہے کہ اس کی حدودِ مملکت سے کہیں آفتاب کی روشنی دور نہیں ہوتی۔ لیکن آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ دنیا میں بعض ایسے بھی آزاد اور خود مختار ممالک ہیں جن میں سے بعض کا رقبہ حیدرآباد کے کسی صوبے کے برابر بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ آزادی اور خود مختاری کے ان تمام لوازم سے بہرہ اندوز ہیں جو ایک بڑی سے بڑی آزاد سلطنت رکھتی ہے۔ مثلاً یونان کا رقبہ انچاس ہزار مربع میل ہے۔ بلغاریہ کا چالیس ہزار میل، پرتگال کا پینتیس ہزار پانسو، البانیہ کا بیس ہزار، ڈنمارک کا پندرہ ہزار، ہالینڈ کا بارہ ہزار سات سو، بلجیم گیارہ ہزار مربع میل ہے اور ان سب کے مقابلے میں حیدرآباد کا رقبہ اپنی موجودہ حالت میں بیاسی ہزار چھ سو اٹھانوے مربع میل ہے۔ گویا جن آزاد بادشاہوں اور جمہوریتوں کا ذکر کیا گیا ان میں سے بعض سے دگنا بعض سے چار گنا اور بعض سے چھ بلکہ سات گنا زیادہ ہے۔ لیکن اگر حیدرآباد کے اس موجودہ رقبے میں آپ برار و شمالی سرکار کے رقبے کو بھی شامل کر لیں جو بلاشبہ اور جائز طور پر مملکت حیدرآباد کا ایک جزو ہے تو بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس کا رقبہ مملکتِ یورپ کی درجۂ اوّل کی سلطنتوں، انگلستان، جرمنی، فرانس، اٹلی اور ہسپانیہ سے زیادہ نہیں تو ان کے برابر ضرور ہوجائے گا۔”

دوسری اہم وجہِ امتیاز جو ایک مملکت کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی حکومت کے زیرِ سایہ کتنے نفوس انسانی زندگی بسر کررہے ہیں۔ بعض ایسے ملک بھی دنیا کے نقشے پر ملیں گے جن کا رقبہ اس براعظم کے اس کنارے سے اُس کنارے تک پھیلا ہوا ہے۔ لیکن آبادی اس میں ویسی ہی ملے گی جیسے ایک صحرائے لق و دق میں سبزہ و گیاہ کا نشان، آبادی کی کمی اور زیادتی کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں۔ اراضی کے بڑے حصے کا بنجر صحرا پہاڑ، اور اسی طرح دوسرے اسباب کی بنا پر ناقابلِ کاشت ہونا۔ مملکتوں کا غلط نظام حکومت اور رعایا کا اس سے مطمئن نہ ہونا، کہیں اقتصادی اور معاشی حالت کی خرابی وغیرہ۔”

"حیدرآباد کی آبادی گزشتہ مردم شماری کی رو سے بلا شمول صوبہ برار و شمالی سرکار ایک کروڑ چوالیس لاکھ چھتیس ہزار ایک سو پچاس ہے۔ اگر اس کو رقبۂ مملکت پر تقسیم کیا جائے تو فی مربع میل 175 نفوس کا اوسط آتا ہے۔ برخلاف اس کے دنیا میں بہت سے ایسے خود مختار اور آزاد ممالک ملیں گے جن کی آبادی کو حیدرآباد کی آبادی سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ اس تناسبِ آبادی کی قرارداد میں ہم ان ممالک کو نظر انداز کرتے ہیں جن کے رقبہ سے متعلق اوپر بحث ہوئی۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ ان کی آبادی بھی رقبہ کے تناسب سے کم ہوگی اور ہے۔ مثلاً یونان جس کی آبادی صرف ستّر لاکھ ہے اور فی مربع میل اس کی آبادی کا اوسط (67) نفوس ہے۔ بلغاریہ جس کی آبادی صرف پچیس لاکھ ہے اور فی مربع میل (137) نفوس ہے۔ البانیہ کی آبادی دس لاکھ اور فی مربع میل (50) نفوس ہے۔ پرتگال کی آبادی چھپن لاکھ اور فی مربع میل (100) نفوس ہے۔”

"مذکورہ بالا ممالک کی آبادی کے اعداد و شمار پر غور کرتے ہوئے یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ یہ یورپ کے وہ ممالک ہیں جو کہ زرخیزی کے اعتبار سے مشہور اور ہر قسم کے اقتصادی اور معاشی تفوق سے سرفراز ہیں۔ اور ان میں سے اکثروں کی اپنی بندرگاہیں ہیں۔ زراعت، تجارت ، صنعت ، کسبِ معاش کے بیسیوں ذرائع ان کو حاصل ہیں اور ان کا طریقہ حکومت بھی ترقی یافتہ کہاجاسکتا ہے جو باوجود اس کے حیدرآباد کی آبادی اور رقبے کے ساتھ کسی تناسب میں مقابلہ نہیں کرسکتے۔”

"اب چند ان ممالک پر بھی نظر ڈالیے جو گورقبہ اراضی حیدرآباد سے دو چند اور بعض صورتوں میں چہار چند رکھتے ہیں لیکن آبادی میں حیدرآباد کے ساتھ ان کو کوئی نسبت نہیں دی جاسکتی۔ مثلاً شہنشاہیتِ ایران جس کا رقبہ حیدرآباد سے تقریبا آٹھ گنا زیادہ ہے یعنی چھے لاکھ تیس ہزار مربع میل لیکن آبادی حیدرآباد سے کم یعنی صرف ایک کروڑ ہے۔ آبادی کا تناسب فی مربع میل صرف (16) نفوس پر مشتمل ہے۔ حکومتِ نجد و حجاز کا رقبہ گو حیدرآباد سے بارہ گنا زیادہ یعنی دس لاکھ مربع میل ہے لیکن آبادی صرف پندرہ لاکھ اور تناسب (ڈیڑھ) کس فی مربع میل ہے۔ عراق کا رقبہ حیدرآباد سے تقریبا دو گنا زیادہ یعنی ڈیڑھ لاکھ مربع میل ہے۔ لیکن آبادی صرف تیس لاکھ اور تناسب بیس کس فی مربع میل ہے۔ مصر کا رقبہ حیدرآباد سے چار گنا زیادہ یعنی تین لاکھ ترسٹھ ہزار دو سو میل لیکن آبادی تقریباً برابر یعنی ایک کروڑ چالیس لاکھ اور تناسب آبادی (38) ایشائی ترکی کا رقبہ تقریبا پانچ گنا زیادہ یعنی چار لاکھ مربع میل لیکن آبادی حیدرآباد سے کم یعنی صرف ایک کروڑ بیس لاکھ ہے اور تناسب صرف (30)۔ افغانستان کا رقبہ بھی تقریباً تین گنا زیادہ یعنی دو لاکھ پینتالیس ہزار مربع میل ہے۔ لیکن آبادی نصف سے بھی کم یعنی ترسٹھ لاکھ اسی ہزار اور تناسب صرف (26)۔ اب اندازہ کیجیے۔”

"حیدرآباد اپنی آبادی کے اعتبار سے نہ صرف یورپ کی چھوٹی چھوٹی حکومتوں بلجیم، ہالینڈ، البانیہ، یونان، پرتگال، ڈنمارک، بلغاریہ وغیرہ سے بڑھ کر ہے بلکہ ایشیا کی بڑی بڑی سلطنتوں ایران، ترکیہ، مصر، نجد و حجاز، عراق، افغانستان اور نیپال وغیرہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور تمام تقابلِ برار کو شامل کیے بغیر ہے جو مملکتِ آصفیہ کا ایک زرخیز اور آباد صوبہ ہے۔ اگر اس کو شامل کر لیا جائے تو شاید یورپ کی بڑی بڑی سلطنتیں بھی حیدرآباد کا آبادی کے معاملے میں مقابلہ نہ کرسکیں۔”

"آپ نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ایشیا کے بعض ممالک جو اپنے رقبے میں زیادتی پر ناز کرسکتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔ ان کے رقبۂ مملکت کا بیشتر حصّہ غیر آباد، ویران اور سنسان ہے۔ اگر کوئی شخص ویرانوں، کھنڈروں اور غیر آباد مقاموں میں کھڑا ہو کر رابنسن کروسو کی طرح صدا بلند کرسکتا ہے اور دنیا اس کو ایک باعظمت و جبروت بادشاہ مان سکتی ہے تو پھر غیر آباد ممالک بھی بیشک حیدرآباد کے مقابلے میں اپنا تفوق جتاسکتے ہیں لیکن اگر مملکت کے لیے آبادی شرط ہے اور وہ حیدرآباد کی مناسبت سے ان کے یہاں کچھ بھی نہیں تو ان کو حیدرآباد کے تفوق کو ماننا پڑے گا۔ برخلاف ان ممالک کے جہاں میلوں تک رقبۂ اراضی صحرا یا پہاڑوں کی شکل میں بیکار ہے۔”

دکن سے متعلق تقریر کے معلومات افزا اقتباسات کے بعد اس ریاست کے آخری نظام میر عثمان علی خان کے بارے میں جان لیں کہ انھوں نے برصغیر کی اسلامی درس گاہوں، جدید تعلیمی اور سماجی اداروں کی ہر طرح سے سرپرستی اور مالی امداد کی۔ اسی سبب انھیں سلطانُ العلوم بھی کہا جاتا تھا۔ حیدر آباد دکن کے اس درویش اور سخی حکم راں نے دین و ملّت کے لیے بھی اپنے خزانوں کا منہ کھول کر رکھ دیا اور ایک عاشقِ‌ رسول کی حیثیت سے اور اپنی آخرت کا سامان کرنے کے لیے میر عثمان علی خان نے خطیر رقم سے مسجدِ نبوی اور خانۂ کعبہ میں کاموں کے علاوہ وہاں جنریٹر اور بجلی کی فراہمی کے منصوبے کو انجام تک پہنچایا۔ انھوں نے حیدرآباد دکن میں ایک ہوٹل، بلڈنگ مدینہ مینشن بنائی اور ایک ٹرسٹ بنایا، جس کی آمدنی مکّہ، مدینہ میں‌ کاموں اور حاجیوں کے اخراجات پورے کرنے پر صرف کی جاتی تھی۔

میر عثمان علی خان نے قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کو 20 کروڑ روپے عطیہ دیا تھا، جس سے نئی مملکت کے اخراجات اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کی گئیں۔