دانتوں کی فلنگ کروانے کے جھنجھٹ سے نجات پائیں

51 تعبيرية جمعرات 12 جنوری‬‮ 7102 - (سپہر 4 بجکر 51 منٹ)

شیئر کریں:

دانتوں کی فلنگ کروانے کے جھنجھٹ سے نجات پائیں دانتوں کی تکلیف جہاں نا قابلِ برداشت ہوتی ہے وہاں ان کی فلنگ، صفائی اور دیگر علاج بھی انتہائی مہنگا ہوتا ہے جب کہ خراب دانت چہرے کی وجاہت اور دلکشی کو بھی ماند کردیتے ہیں۔ مسلسل مشاہدے، تحقیق اور تجربات کے بعد میڈیکل سائنس اس قابل ہو گئی ہے کہ دانتوں میں نمو کا نظام خود بہ خود فعال کر سکیں جس کے بعد مریضوں کو دانتوں کی فلنگ کے لیے ڈینٹسٹ کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ کنگز کالج لندن میں محقیقین کی ایک ٹیم نے چوہوں پر کیے جانے والے ایک تجربے سے پتہ چلایا کہ ایک کیمیکل دانتوں کے گودے میں موجود خلیوں کو بڑھنے اور دانتوں میں ہوجانے والے چھوٹے چھوٹے سوراخوں کو بھرنے میں مدد دیتا ہے۔ کھانے میں میٹھی اشیاء کے بے تحاشہ استعمال اور دانتوں کی صفائی پر توجہ نہ دینے کے باعث دانتوں میں کیڑا لگنے کی شکایات عام ہیں اس کیویٹی کی وجہ سے دانت میں سوراخ ہوجاتا ہے جو اگر جڑ تک پہنچ جائے تو درد نہایت تکلیف دہ اور ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ اپنی تحقیق کے دوران محقیقن نے دریافت کیا کہ چوہوں کے کیویٹی لگے دانتوں میں ٹائڈگلوسپ نامی دوا لگانے سے چوہوں کے دانتوں میں بننے والی سراخوں کو صفر اعشاریہ ایک تین ملی میٹر تک بھرا جا سکا۔ ٹائڈ گلوسپ دراصل وہ مالیکول ہے جس سے تیار کی گئی دوا کو الزائمر کے مرض میں مبتلا افراد کے علاج میں تجویز کیا جاتا ہے تا ہم اس دوا کے اثرات کا مشاہدہ کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ ٹائڈ گلوسپ استعمال کرنے والے کے دانتوں میں لگنے والی کیویٹی خود بہ خود بھرنے لگی۔ جس کے بعد اس مالیکیول کو معمولی تبدیلی کے ساتھ تجربہ گاہ میں چوہوں پر آزمایا گیا جس نے حیرت انگیز نتائج دیئے اسپنج میں ملی ٹائڈ گلوسپ کو دانتوں کی خالی جگہ پر رکھا جائے اور اسپنج کے خاتمے کے بعد دانت میں ڈینٹائن مادہ بھر دیا جائے تو دانت مکمل طور پر درست ہو جاتا ہے۔ محقیقن کا کہنا ہے کہ اس طریقہ علاج کی سب سے اہم بات اسپنج ملی داو کا ٹھیک اس وقت ختم ہونا ہے جب دانتوں میں لگا جرثومہ اپنی موت آپ مر چکا ہوتا ہے جس کے بعد ڈیناٹئن مادے سے سوراخ کو بھر دیا جاتا ہے۔ واضح رہے دانتوں میں کیویٹی لگنے کا عمومی طریقہ علاج پارے کے ساتھ ایک سے زیادہ دھاتوں سے بنے مواد کو ملا کر فلنگ کرنا ہے اس مواد کو املگم کہا جاتا ہے اس کے علاوہ سرامک پاؤڈر کے زریعے بھی دانتوں میں لگی کیویٹی کو بھرا جاتا ہے۔ تاہم سائنس دانوں کی نئی تحقیق کے بعد دانتوں کے امراض میں مبتلا افراد کو نہ صرف یہ کہ درد کے کرب سے بچاؤ ممکن ہوگا بلکہ ڈینٹسٹ کے پاس چکر لگانے سے بھی جان چھوٹ جائےگی۔ محقیقن کا خیال ہے کہ تین سے چار سالوں کے اندر اندر یہ طریقہ علاج ہر ایک کے لیے بآسانی دستیاب ہوگا اور داندان سازی کے طریقہ علاج میں انقلاب برپا کردے گا۔ اس خبر کو لائیک یا شیئر کرنے اور مزید خبروں تک فوری رسائی کے لیے ہمارا اور وزٹ کریں