تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں، جو رسک لینے کو تیار ہوتے ہیں، چیف جسٹس

1 تعبيرية ہفتہ 14 دسمبر‬‮ 9102 - (دوپہر 21 بجکر 8 منٹ)

شیئر کریں:

تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں، جو رسک لینے کو تیار ہوتے ہیں، چیف جسٹس اسلام آباد : چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں، جو رسک لینے کو تیار ہوتے ہیں، جو کرنا ہے، بس کرجاؤ، نیت ٹھیک ہونی چاہیے، لوگ تنقید کرتے رہیں گے،جوسمت چل رہی ہے اسے چلنے دیں۔

تفصلات کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ لاہورواقعہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے، واقعہ زیرسماعت ہے، زیادہ بات نہیں کرناچاہتا، ڈاکٹرز اور وکالت دونوں معاشرے کے باوقار پیشے ہیں، دونوں پیشوں کے ساتھ گرانقدر روایات منسلک ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماڈل کورٹس نے شاندارکارکردگی کامظاہرہ کیا، ماڈل کورٹس کےذریعےتیزتر انصاف کو یقینی بنایا گیا ہے، معزز پیشے سے تعلق رکھنے والوں کوخود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا، نظام میں رہتے ہوئے انصاف میں تاخیر کے عمل کو مختصرکیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ریاست میں گواہوں کولانےکی ذمہ داری مدعی پر ڈال دی گئی، ہم نے فیصلہ کیا گواہوں کولاناریاست اورپولیس کی ذمہ داری ہوگی، ریاست وپولیس کوگواہوں کو لانے کی ذمہ داری دینے سے انقلابی تبدیلی آئی، ایسا سسٹم بنایا ہے17دن کے اندر چاہے نامکمل چالان ہو لیکن پیش ہوجائے۔

ان کا کہنا تھا کہ وکلا کے مختلف عدالتوں میں پیش ہونے کا شیڈولنگ سسٹم بنایا، سینئر وکیل کے ہائی کورٹ، سپریم کورٹ میں بیک وقت کیس لگے ہوتے تھے، درخواستیں آنا شروع ہوگئیں کہ ہمارے کیسزماڈل کورٹس منتقل کئے جائیں، ماڈل کورٹس نے یہ تاثر پیدا کردیا کہ 2دن میں فیصلہ آنا ہے تو ضمانت کیا لینی۔

چیف جسٹس نے کہا جج صاحبان کیس کی کارروائی پہلے دن سے لکھنا شروع کردیتے ہیں، پہلےدن سےکیس لکھنےسےفیصلہ سنانےمیں آسانی ہوتی ہے، 5 سال سےمیرےبینچ میں کسی کیس کی سماعت ملتوی نہیں ہوئی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں208دن میں1لاکھ15ہزارٹرائل مکمل کئےگئے، ایسی ٹیم بن گئی ہےہرمعاملےپرچیف جسٹس کومداخلت کی ضرورت نہیں پڑے ، جہلم جیسےضلع میں زیرالتواکیسزکی شرح صفر ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ 6 ماہ پہلےآج تک ایک بھی شکایت کسی طرف سے نہیں آئی، شکایت نہیں آئی کہ جج صاحب کی مووجدگی میں کوئی شہادت ریکارڈ کی گئی ہو، سپریم کورٹ کے جج صاحبان نےکہاماڈل کورٹس پرچھاپہ ماریں گے، بذریعہ ویڈیولنک ماڈل کورٹس کی کارروائی دیکھیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نےدیکھا ماڈل کورٹس کےججزہائیکورٹ کےججزلگ رہے تھے، ماڈل کورٹ سے متعلق کوئی بھی شکایت موصول نہیں ہوئی، بےجاتنقید سےدل شکنی ہوتی ہے لیکن حوصلے پست نہیں ہوتے، 1994 کی کچھ کرمنل کیسزکی اپیلیں تھیں جو ختم کردی گئیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں جو رسک لینےکوتیارہوتےہیں، جو کرنا ہے بس کر جاؤ،نیت ٹھیک ہونی چاہیے، لوگ تنقید کرتے رہیں گے، جو سمت چل رہی ہے اسے چلنے دیں، تضحیک کےباعث بنےادارےکوآپ نےعزت کےقابل بنادیا، 1.6بلین روپےکےجرمانےلگائے، 120 بلین کےجرمانے ریاست کو جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پولیس کےساتھ لیویزنےبھی بہت تعاون کیا، اسلام آبادمیں بیٹھ کرکوئی بھی بلوچستان کےحالات کااندازہ نہیں کرسکتا، لیویز اہلکاروں سے امید ہے ، وہ آئندہ بھی تعاون جاری رکھیں گے، ماڈل کورٹس کے ججز کا طریقہ سماعت ہائیکورٹ کی سطح کا ہے، ماڈل کورٹس نے مردہ سسٹم میں جان ڈال دی ہے۔