انسداد پولیو مہم : دنیا کے ایک کروڑ سے زائد بچوں کو معذوری سے بچالیا گیا

1 تعبيرية بدھ 23 ستمبر‬‮ 0202 - (صبح 01 بجکر 23 منٹ)

شیئر کریں:

انسداد پولیو مہم : دنیا کے ایک کروڑ سے زائد بچوں کو معذوری سے بچالیا گیا اسلام آباد : پولیو جیسے موذی مرض کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی ادارے ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے ہنگامی اقدام کے بعد سال 1988ء سے لے کر اب تک پولیو کے خلاف جاری عالمی جنگ میں گراں قدر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔

محتاط اعدادو شمار کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں دنیا بھر میں پولیو کیسز کی تعداد میں ٪99 تک کمی واقع ہوئی ہے۔ سال 1988ءمیں پوری دنیا سے لگ بھگ350000کے قریب پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے جو کہ حیران کن حد تک کمی کے بعد سال 2012ءمیں صرف 223رہ گئے تھے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سال 1988ء میں پولیو سے متاثرہ ممالک کی تعداد 125 سے زائد تھی جو کہ اب صرف جنوبی ایشیا کے دو ممالک پاکستان اور افغانستان تک محدود ہو کررہ گئی ہے۔

سال 1988ء سے اب تک 200 سے زائد ممالک،2 کروڑ رضاکاروں کے غیرمعمولی تعاون اور20ارب ڈالر کی بین الاقوامی مالی امداد کے ذریعےتقریباَ 5.2ارب بچوں کو پولیو کے خلاف حفاظتی حصار فراہم کیا جاچکا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ 1کروڑ سے زائد ایسے بچے جو کہ ممکنہ طور پر اس مرض کے باعث معذوری کا شکار ہوسکتے تھے وہ آج پولیو کے خاتمے کے لیے جاری اس پروگرام کے باعث صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔

پولیو کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں کے باعث بہت سے ممالک میں تندرست و توانا معاشرے کے قیام کی جدوجہد میں صحت سے متعلق سہولتی نظام کو مزید مستحکم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی جانب سے خطیر رقم کی سرمایہ کاری بھی کی جا رہی ہے ۔

اس پروگرام سے وابستہ ہزاروں ہیلتھ ورکرزکو تربیت کی فراہمی، لاکھوں رضا کاروں کو پولیو کے خاتمے کے لیے جاری حفاظتی خطرے پلانے کی مہم میں متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ کولڈ- چین ٹرانسپورٹ کے سامان کی معیاری حالت میں دستیابی کو یقینی بنا دیا گیا ہے۔

اس طرح پولیو پروگرام کی سرگرمیوں کے دوران وٹامن- اے کے منظم انتظام کی مدد سے 15لاکھ سے زائد بچوں کی زند گیاں بچا لی گئی ہیں۔

جہاں پولیو کے خاتمے کے لیے جاری پروگرام میں مجموعی طور پر حاصل ہونے والی گراں قدر کامیابیوں کی داستانیں زبان زد عام ہیں وہیں صرف ایک فیصد کے قر یب بقایا رہ جانے والے پولیو کیسز سے نمٹنے میں پروگرام سے وابستہ اراکین کو تھکا دینے والی دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے جس کے باعث گذشتہ ایک عرصے کے دوران پروگرام کے لیے مختص اخراجات میں غیر متوقع اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

پولیو سے متاثرہ باقی ماندہ دو ممالک کے کچھ حصوں میں مذکورہ وائرس کی موجودگی کا خاتمہ، صحت کے شعبے میں دور حاضر کا سب سے بڑا چیلنج ہے جس سے بطریق احسن نمٹنے کے لیے صحت کے عالمی ادارے اور ان کی شراکتی ذیلی تنظیمیں کامیابی کے حصول کے لیے مسلسل کمربستہ ہیں۔

اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ جب تک ان بقایا رہ جانے والی آماجگاہوں سے پولیو جیسے موذی مرض کا مکمل خاتمہ نہیں کر لیا جاتا، دنیا بھر میں بچوں کی زندگیوں کو ممکنہ طور پرلاحق خطرات کے سائے منڈلاتے رہیں گے۔

انسانیت کی قدو و منزلت کے پیشِ نظر جانوں کے اتنے بڑے پیمانے پر ضیاع کو روکنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پراقدامات اٹھانے کی فوری ضروت ہے چاہے اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔

پولیوکےخاتمےکےلیےجاری اس جدوجہد کی تکمیل کےلیے، متاثرہ ممالک میں بین الاقوامی امدادی اداروں کی جانب سے مالی تعاون میں اضافہ اوران ممالک میں موجود سیاسی طاقتوں کی پختہ قوتِ ارادیت موجودہ حالات میں وہ ناگزیرعوامل ہیں جن کے بغیر کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔

شعبہ صحت سے وابستہ محقیقین کےمطابق، ایک بھی بچے میں پولیو کےاثرات کی موجودگی سے نا صرف اس وائرس کےحیاتِ نو بلکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے بچوں میں اس موذی وائرس کی منتقلی کے وسیع ترامکانات موجود رہیں گے جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔