سعودی جیل جہاں قیدی شاعر بن جاتے ہیں

1 تعبيرية جمعہ 21 فروری‬‮ 0202 - (صبح 9 بجکر 8 منٹ)

شیئر کریں:

سعودی جیل جہاں قیدی شاعر بن جاتے ہیں ریاض : سعودی عرب میں ایک ایسی جیل بھی موجود ہے جہاں سزا کاٹنے والے قیدی تعلیم یافتہ اور شاعر بن کر نکلتے ہیں۔

جیل کا سنتے ہی کسی خوفناک اور خطرناک شکنجے دینے کی والی جگہ کا تصور آتا ہے جہاں مقیم افراد کو ایسی ایسی سزائیں دی جاتی ہے کہ روح قبض ہوجائے لیکن سعودی عرب میں ایک ایسی بھی جیل موجود ہے جہاں رہائش رہنے کی انسان خود خواہش کرے۔

جی ہاں! سعودی عرب کے مشرقی ریجن میں واقع ریاست کی پانچویں سب سے بڑی جیل واقع ہے جس میں تقریباً 950 سے 1000 قیدی موجود ہے۔

عرب خبر راں ادارے کا کہنا تھا کہ اس جیل میں قید 95 فیصد افراد کا تعلق سعودی عرب جبکہ باقی پانچ فیصد قیدیوں کا تعلق دیگر ممالک سے ہے، مقامی میڈیا کے مطابق ان سیکڑوں قیدیوں میں 14 خواتین قیدی بھی شامل ہیں۔

مقامی میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس جیل میں قیدیوں کو اعلیٰ تعلیم، بہترین صحت اور کھیل و تفریح کی سہولیتں بھی فراہم کی جاتی ہیں جبکہ انسانی حقوق کے علمبردار ادارے مختلف اوقات میں یہاں قید قیدیوں سے ان کا حال احوال جانتے رہتے ہیں۔

جیل حکام نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ بعض اوقات جیل میں قید افراد کو گھر بھی بھیجا جاتا ہے لیکن اس سے قبل انہیں برقی کڑا پہنایا جاتا ہے جبکہ شادی شدہ قیدیوں کی مہینے میں دو مرتبہ ان کی اہلیہ سے ملاقات کروائی جاتی ہے اور ہفتے میں ایک بار اہل خانہ سے ٹیلیفون پر بات بھی کروائی جاتی ہے۔

عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جیل میں خواتین کا وارڈ علیحدہ ہے جسے 3 سال قبل بھی بنایا گیا ہے اور یہاں تمام عملہ خواتین پر مشتمل ہے جبکہ جن خواتین کے ساتھ چھوٹے بچے ہیں ان کی سہولت کےلیے جیل کے اندر ہی نرسری بھی بنائی گئی ہے۔

جیل میں کلینک بھی قائم کیا گیا ہے جہاں ایک لیڈی ڈاکٹر اور نرس ہر وقت موجود رہتی ہیں۔

مقامی کا کہنا ہے کہ جیل میں قائم 36 کمروں پر مشتمل استپال میں 82 ماہر ڈاکٹرز، 75 نرسیں اور 11 اسپیشلسٹ ڈاکٹرز موجود ہیں جبکہ تمام جدید سہولیات سے آراستہ ایک آپریشن تھیٹر بھی موجود ہے۔

ایک قیدی کے والد نے عرب خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ میرا بیٹا ان دنوں جیل میں سزا کاٹ رہا ہے اور اس دوران میرا اپنے بیٹے سے مسلسل رابطہ رہتا ہے، مجھے خوشی ہے کہ میرا بیٹا جیل میں شاعر بن چکا ہے۔

ایک خاتون قیدی نے میڈیا کو بتایا کہ مجھے اس جیل میں 1 سال ہوگیا ہے اور یہاں مجھ کوئی پریشانی نہیں اٹھانا پڑتی، یہاں میرے بچے کی تعلیم و تربیت کےلیے نرسری بھی موجود ہے۔