اقبال کی شاعری پر تنقید: فراق گورکھ پوری نے جوش ملیح آبادی کو آئینہ دکھا دیا

1 تعبيرية منگل 19 نومبر‬‮ 9102 - (شام 7 بجکر 71 منٹ)

شیئر کریں:

اقبال کی شاعری پر تنقید: فراق گورکھ پوری نے جوش ملیح آبادی کو آئینہ دکھا دیا اردو زبان کے قادر الکلام شاعر جوش ملیح آبادی کی رندی و بے باکی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ اپنے خیالات کے اظہار میں اکثر نامعقول اور غیر مناسب رویہ اپناتے اور تنازع جنم دیتے رہتے۔ ایک زمانے میں وہ علامہ اقبال کے خلاف ہوگئے اور جب ان کی جانب سے اس کا تحریری اظہار کیا گیا تو فراق گورکھ پوری نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا۔

اپنے ایک خط میں انھوں نے جوش کو سخت انداز میں مخاطب کیا ہے۔ فراق نے جوش کے نام الہ آباد سے 2 جنوری 1975 کو یہ خط تحریر کیا تھا جس کی چند سطور آپ کی توجہ اور دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔

‘‘تمھارا جو ایک خفیہ انٹرویو تھا یعنی اسے تمھارے مرنے کے بعد شایع ہونا چاہیے تھا مگر تمھارے حاشیہ برداروں نے اس کو قبل از وقت شایع کر کے راز کو فاش کر دیا اور تمھارے اوپر عتاب نازل ہونے لگے۔ میرے نزدیک یہ تمھاری غلطی تھی۔

صحیح بات تو یہ ہے کہ تم اقبال کو سمجھ بھی نہیں سکتے۔ کیوں کہ اقبال نے دینِ اسلام کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس کی افادیت میں اعلیٰ پیمانے کی گہر افشانی کی ہے۔ ان کا علم اس معاملے میں مکمل ہے۔ تم دین سے واقف ہی نہیں اور دین کی گہرائیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے علم کم ہے اور اس پر طرفہ یہ کہ تم دہریے بھی ہو۔’’

‘‘تمھاری شاعری اس لیے نہیں مانی جا سکتی کہ اس میں تضاد ہے۔ میں نے جو اقبال پر اعتراضات کیے ہیں ان کی نوعیت الگ ہے۔ وہ ملت کی شاعری اگر نہ بھی کرتے تو بھی عظیم ترین شاعر ہوتے۔ لیکن ملت کی شاعری پر بھی میں تنقید نہیں کرسکتا کیوں کہ میں اسلامی مسائل سے نابلد ہوں اور اگر واقف ہوتا بھی تو بھی مجھے اس کا حق نہیں کہ کسی کے دینی معاملات میں دخل دوں۔ ملت کی شاعری کے علاوہ اقبال نے جو کہا ہے وہ بھی بہت کچھ ہے۔

تمھاری تنقید اقبال پر ہر اعتبار سے غیر معتبر ہے۔ کیوں کہ تم اس تضاد کا شکار ہو کہ کبھی تم دہریے بن جاتے ہو اور کہیں پر مرثیے میں اپنے جوہر دینی طور پر دکھانے لگتے ہو۔ میں میر انیس، محسن کاکوروی، تلسی داس وغیرہ کو اس لیے نہیں مانتا کہ وہ مذہبی شاعر تھے بلکہ ان کی فن کارانہ صلاحیتیں ادبی دنیا کا عظیم ذخیرہ ہیں۔

اقبال کی شاعری میں جو تضاد ہے وہ بھی عقل و دانش کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ تمھاری شاعری کا بنیادی تضاد مشقِ سخن پر دلالت کرتا ہے۔ مذہبی دائو پیچ، سیاسی جوڑ توڑ یہ سب شاعری میں ابھرنے کے لیے ہیں۔ تم اقبال کو برا کہہ کر اقبال سے بلند ہونے کی کوشش نہ کرو۔ کیوں کہ یہ گناہِ عظیم ہے۔ وقت کی کسوٹی نے جتنا کھرا تم کو مان لیا ہے اسے کھوٹا نہ کرو۔’’