حسرت سے پہلی ملاقات کا قصّہ

1 تعبيرية پیر 26 اکتوبر‬‮ 0202 - (سپہر 5 بجکر 32 منٹ)

شیئر کریں:

حسرت سے پہلی ملاقات کا قصّہ حقیقت یہ ہے کہ اس گنہگار نے ان کو سرشاری کے عالم میں تو کئی بار دیکھا، لیکن جام بکف کبھی نہیں دیکھا۔ اختر شیرانی اور منٹو کی طرح وہ بھی ایک رنِد بلا نوش تھے اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں نے انہیں دیکھا ہی نہیں۔ بلکہ ان سے پہلی ملاقات پُرانی کتابوں کی ایک دکان پر ہوئی جو ایک پہلو سے غور کریں تو حسرت کا دوسرا روپ تھا۔

یہ دکان اس جگہ واقع تھی جہاں مال پر ”کلاسیک“ کی بغل میں ایک چھوٹی سی گلی روڈ پر جا نکلتی ہے۔ میں وہاں پہلے سے موجود تھا کہ ایک جرنیلی قامت کے بزرگ کرنیلی مونچھیں لگائے داخل ہوئے۔

ارے، میں نے سوچا، یہ تو اپنے حسرت صاحب ہیں۔ سلام کیا تو اشارے سے جواب ملا جیسے کوئی ناگوارِ خاطر خطا سرزد ہو گئی ہو۔ دکان دار سے انہوں نے پوچھا: کیوں مولانا کوئی اردو فارسی کی نایاب، پرانی کتاب بھی آئی؟ کسی گاہک کی طرف سے یہ سوال گویا بلینک چیک دینے کے برابر تھا۔

اس نے کہا کہ چھاپے کی کتاب تو نہیں ایک قلمی کتاب ہاتھ لگی ہے۔ بس آپ جیسے شوق والوں کے لیے۔ کہا کہ مولانا، ہم تو مطبوعہ کے مشتاق ہیں، مخطوطہ ہو تو اورینٹل کالج لے جائیے۔ میں اس فقرے کا مزہ لینے لگا: مطبوعہ کے دوسرے معنے ہوئے دل پسند عورت اور مخطوطہ گویا وہ عورت جس کے ڈاڑھی مونچھ نکل آئی ہو۔ دکان دار کے تو یہ فقرہ سر سے گزر گیا، سیدھا سا جواب دیا کہ کالج والے تو ادھر آتے ہی نہیں، بس آپ جیسے ایک دو مہربان کبھی آ جاتے ہیں۔ ایک یہ لڑکا ہے، بی اے میں پڑھتا ہے اور یہ ہمارا وطنی ہے۔ حسرت صاحب نے مجھے نظر انداز کرتے ہوئے کہا: تو مولانا وہی کتاب دکھائیے۔ کھول کے اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔

میں نے کنکیھوں سے جھانکا تو شیفتہ کا ”تذکرہ گلشنِ بے خار“ تھا۔ خیال آیا کہ 1857ء سے پہلے کی چھپی ہوئی کتابیں دیکھنے میں کتابت شدہ مسوّدے کی طرح لگتی ہیں۔ اجازت لے کر اسے دیکھا تو شروع سے آخر میں مطبع کا حوالہ موجود تھا۔ دکان دار کو بتایا تو کہنے لگا کہ تم اچھے ہمارے وطنی ہو، ہمارے مال کی قیمت کم کرتے ہو۔ حسرت نے کہا: مولانا، پیسے تو آپ کو اتنے ہی ملیں گے جتنے میری جیب میں بچے ہیں اور فوراً ہی دس دس کے پانچ نوٹ نکال کر میز پر دھر دیے۔

میں نے دکان دار سے کہا کہ آج تو ہمارے وطن کی آبرو رکھو اور دو نوٹ اٹھا کر حسرت صاحب کو واپس کر دیے۔ بولے کہ یہ کتاب میں آج تیسری مرتبہ خرید رہا ہوں۔ ایک جنگ میں جاتی رہی اور ایک سرحد پار کرنے سے پہلے لیکن یہ نسخہ زیادہ پرانا ہے اور بے حد صاف ستھرا، تیس روپے میں تو سمجھو مفت ہے اور ہاں، مجھ سے مخاطب ہوئے، آپ کا وطن مالوف؟ کہا کہ امرتسر شہر تھا عالم میں انتخاب۔

خوب، صاحبِ دکان کو کیسے جانتے ہیں؟ کہا کہ وہاں ایک افغانی پریس ہُوا کرتا تھا، یہ بڑے خان صاحب کے چھوٹے بیٹے ہیں۔ کہا کہ ارے اُن سے تو باری صاحب کے ساتھ ایک بار ملا تھا۔ اب کہاں ہیں؟ جی وہ بھی لوہاری دروازے کے باہر پرانی کتابوں کی ایک دکان کرتے ہیں۔ بولے کہ اس وقت تو دفتر جانے کی جلدی ہے، آپ چلیں تو چائے وہاں پئیں اور گورو کی نگری کو یاد کریں۔

مجھے معلوم تھا کہ سڑکوں پر پیدل مارچ کیا کرتے ہیں، کہا کہ تانگالے لیتے ہیں۔ ذرا کی ذرا ان سے ملا کر دفتر واپس پہنچا دے گا۔ وہاں مسلم مسجد کے پہلو میں شمس الدین کے یہاں بھی جھانکنا چاہیے۔ پہلے دست فروش تھے، اب دکان کر لی ہے۔

تانگے میں بیٹھتے ہوئے کہا: مولانا یہ دست فروش کس زبان کا کلمہ ہے اور کیا معنے دیتا ہے؟ سمجھ گیا کہ امتحان لیتے ہیں، ایک سعادت مند شاگرد کی طرح جواب دیا کہ ایرانی محاورے میں پھیری والے کو کہتے ہیں۔ خوب، تو گویا دست بدست بیچنے والا مگر آپ کہاں پڑھتے ہیں؟ بتایا کہ گورنمنٹ کالج میں، فارسی آنرز لے رکھی ہے۔ کہنے لگے: یہ فارسی صوفی تبسم سے تو نہ سیکھی ہو گی، ہاں عابد صاحب نے (عابد علی عابد) تھوڑی سی رٹ رکھی ہے اگرچہ بولتے زیادہ ہیں۔ سمجھ گیا کہ یہ تو بزرگانہ چشمکیں اور چونچلے ہیں، طلبہ ان میں کیا دخل دیں۔

پوچھا کہ آپ تو کلکتہ میں رہے ہیں وہاں سنا ہے کہ خاصے ایرانی موجود ہیں۔ کہنے لگے: ہاں مگر ان کا محاورہ ہمیں اجنبی لگتا ہے۔ میں نے ایک بار محمد علی جمال زادے کا ایک افسانہ ترجمہ کرنا چاہا ”مرزا جعفر حلّاج لیڈر کیسے بنا“ تو اصفہانی چائے والوں کے یہاں جو ایرانی ملازم ہیں اور اُردو بھی جانتے ہیں، ان سے جا جا کے پوچھنا پڑا۔ سبحان اللہ، روزمرہ بول چال میں کیسی بلاغت پیدا کی ہے۔ ترجمہ کرتے ہوئے جان نکل گئی۔

دونوں دکانوں کا ایک چکر لگوا کر انہیں ”امروز“ پر چھوڑا کہ مجھے کہیں اور جانا تھا۔ بولے کہ آئیے کبھی۔ جانے کا موقع تو دیر تک نہ ملا البتہ سیکنڈ ہینڈ بک شاپس پر کبھی کبھار ملنا ہوتا رہا اور ایک مرتبہ وہیں چھوٹے خان صاحب کی دکان پر چائے منگا کر پی گئی کہ اس دن کہیں سے لُوٹ کے مال میں مشہور کائستھ استادِ تاریخ آشیربادی لال سریواستو کی فارسی کتابیں بکنے کو آئی تھیں۔

(مظفر علی سید نے اردو کے صف اوّل کے طنز نگار، ممتاز ادیب، شاعر اور مترجم چراغ حسن حسرت سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال اپنی کتاب “یادوں کی سرگم” میں شامل کیا ہے)‌