کرمنلز ریفارمز : ’9 ماہ میں فیصلہ نہ دینے پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو جواب دینا ہوگا‘

1 تعبيرية ہفتہ 16 اکتوبر‬‮ 1202 - (دوپہر 1 بجکر 04 منٹ)

شیئر کریں:

کرمنلز ریفارمز : ’9 ماہ میں فیصلہ نہ دینے پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو جواب دینا ہوگا‘ کراچی: وزیر قانو بیرسٹر فروغ نسیم نے کرمنلز ریفارمز سے متعلق تفصیلات جاری کردیں اور بتایا کہ کسی بھی کیس کا فیصلہ 9 ماہ میں دیا جائے گا، ماتحت عدالت فیصلہ نہیں دے پائیں گی تو اعلی عدلیہ کے جج کو جواب دینا ہوگا۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس ہیلپ لائن  کا خیال بہت بہترین ہے، اس کی مدد سے نوجوان وکلا کے مسائل حل ہوسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس فورم سے بہت آگاہی ملی جبکہ نوجوان وکلا کے مسائل بھی حل ہوئے ہیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے بتایا کہ ’وزارت قانون اب کرمنل ریفارمز شروع کرنے جارہی ہے، جس کے تحت 9 ماہ میں کیس کا فیصلہ آجائے گا،  ماتحت عدالت فیصلہ نہیں دے پائیں گی تو اعلی عدلیہ کے جج کو جواب دینا ہوگا‘۔

انہوں نے کہا کہ کرملنز ریفارم کے تحت تھانے کا ایس ایچ او کم از کم بی اے پاس ہوگا، پراسیکیکوٹر فیصلہ کریگا کہ ثبوت کافی ہیں کہ نہیں، اس کے تحت فرانز لیبارٹری بھی قائم کی جائے گی،  ڈی این اے ٹیسٹنگ بھی گواہی میں شامل کریں گے ، مقدمے میں الیکٹرونکس گواہی بھی شامل کی جائیگی، 161 کا بیان زبردستی کیا جاتا تھا اب کوشش ہوگی کہ ویڈیو کے ذریعے ہی 161 کا بیان لیا جائے۔

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ آئین کی بالادستی کےلیے وکلا کا کردار اہم ہے، ہمیں اپنےاندر جھانکنےکی ضرورت ہےکون کہاں کھڑا ہے، ہمیں بطور قوم اپنا احتساب کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جن ممالک میں بڑوں کا احتساب نہیں ہوتا وہ اقوام پستی کی طرف جاتی ہیں جبکہ جہاں بلا تفریق سب کا احتساب کیا جائے وہ قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں میں تمام افراد کے لیے یکساں قانو ن ہوتا ہے۔

بیرسٹرفروغ نسیم نے وکلا سے کہا کہ ہمیں قانون کی بالادستی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ ، بار ، آرمی اور سول بیوروکریسی ہمارے اول ادارے ہیں ، ہمیں سو بیوروکریسی کو سپورٹ کرنا ہے ، قانون کی بالادستی اس وقت قائم ہوگی جب انصاف اور قانون سب کے لیے برابر ہوگا،  جب جب وکلاء مصلحت پسندی کا شکار ہوں گے تو لیڈر شپ پیدا نہیں ہوسکے گی، سیمینار کا انعقاد، قانون کی بالادستی پر بات کرنا آسان ہے، لیکن جب عملدرآمد کا وقت آتا ہے تو ہمارے وکلاء اور بار ایسوسی ایشن کہاں ہوتے ہیں، کیا واقعی ہمارے عمل ، قول و فعل میں تضاد ہے یا نہیں، عوام فیصلہ کرے گی کیا وکلاء نے دیانت دار لیڈر شپ دی کیا ان کے ساتھ انصاف کیا گیا؟۔

وزیرقانون کا کہنا تھا کہ وزارت قانون کا کام صرف قانون بنا کردینا ہے، فیصلے تو بہرحال عدالتوں نے کرنا ہے ،  وکلا نے ضمیر کے مطابق کام کیا تو قوم ترقی کرے گی، انہیں قانون کے مطابق کام کرنا ہوگا، جب تک وزارت قانون کا قلم دان میرے پاس ہے، چاہے کوئی کتنا زور لگا لے کچھ بھی کرلے میں غلط کروں گا اور نہ ہونے دوں

’عدلیہ کی اصلاحات کی بات کی تو اعتراضات کیے گیے، قانون بنانے کی بات کی جائے تو وکیل سب سے زیادہ اعتراض کرتے ہیں، عدالت میں جانے والے کو فیصلے کے لیے سالوں سال لگ جاتے ہیں، کسی کی شادی چھپی ہوئی کسی کی جائیداد کا مسلئہ یہ کیسز سالوں سال چلتے ہیں، وکلا نے اپنی اصلاحات کے فیصلے خود کرنا ہوں گے‘۔