یوم آزادی کے حوالے قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے چند دلچسپ واقعات

1 تعبيرية اتوار 13 اگست‬‮ 7102 - (شام 8 بجکر 15 منٹ)

شیئر کریں:

یوم آزادی کے حوالے قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے چند دلچسپ واقعات وفات سے کچھ عرصے قبل قائد اعظمؒ نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ یہ آخری سرکاری تقریب تھی جس میں قائد اعظمؒ اپنی علالت کے باوجود شریک ہوئے۔ وہ مقررہ وقت پر تقریب میں تشریف لائے۔ انہوں نے دیکھا کہ شرکا کی اگلی نشستیں ابھی تک خالی ہیں، لیکن انہوں نے تقریب کے منتظمین کو پروگرام شروع کرنے کا کہا اور یہ حکم بھی دیا کہ خالی نشستیں ہٹا دی جائیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور بعد میں آنے والے شرکاء کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال دیکھنا پڑا۔ ان میں کئی وزراء اور سرکاری افسران کے ساتھ ساتھ اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان بھی شامل تھے۔ 1920 ء میں جب قائد اعظمؒ محمد علی جناح کی شادی ہوئی تو انہوں نے اپنے غسل خانہ کی تعمیر میں اس وقت کے پچاس ہزار روپے خرچ کئے، مگر یہی جب گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے تو ڈیڑھ روپے کا موزہ لینے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ غریب مسلمان ملک کے گورنر کو اتنی مہنگی چیز نہیں پہننی چاہیے۔ ایک مرتبہ برطانیہ کے سفیر نے آپ سے کہا کہ برطانیہ کے بادشاہ کا بھائی آ رہا ہے آپ انہیں ایئرپورٹ لینے جائیں۔ قائد اعظمؒ نے یہ شرط رکھی کہ میں تب ایئر پورٹ جاؤں گا، اگر میرے بھائی کی برطانیہ آمد پر وہاں کا بادشاہ اسے لینے آئے۔ 1943ء کو الہ آباد یونیورسٹی میں ہندو اور مسلمان طلبہ کے درمیان اس بات پر تنازع ہو گیا کہ یونیورسٹی میں کانگریس کا پرچم لہرایا جائے۔ مسلمان طلبہ کا کہنا تھا کہ کانگریس کا پرچم مسلمانوں کے جذبات کا عکاس نہیں اور چونکہ الہ آباد یورنیورسٹی میں مسلمان طلبہ کی اکثریت زیر تعلیم تھی، اس لیے یہ پرچم اصولاً وہاں نہیں لہرایا جا سکتا۔ ابھی یہ تنازع جاری تھا کہ اسی سال پنجاب یونیورسٹی کے مسلم طلبہ کی یونین سالانہ انتخاب میں اکثریت حاصل کر گئی۔ یونین کے طلبہ کا ایک وفد قائد اعظمؒ کے پاس گیا اور درخواست کی کہ وہ پنجاب یورنیوسٹی ہال پر مسلم لیگ کا پرچم لہرانے کی رسم ادا کریں۔ قائد اعظمؒ نے طلبہ کو مبارک باد دی اور کہا اگر تمھیں اکثریت مل گئی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنے غلبے کی نمائش کرنا نازیبا حرکت ہے۔ کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ ہمارا ظرف بڑا ہونا چاہیے۔ کیا یہ نامناسب بات نہیں کہ ہم خود وہی کام کریں جس پر دوسروں کو مطعون کرتے ہیں۔ حضرت پیر سید جماعت علی شاہؒ اپنے دور کے بہت نیک سیرت اللہ کے بندوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ فرمایا کہ محمد علی جناح اللہ کا ولی ہے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آپ اس شخص کی بات کر رہے ہیں جو دیکھنے میں گورا یعنی انگریز نظر آتا ہے اور اس نے داڑھی بھی نہیں رکھی ہوئی، تو امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہؒ نے فرمایا ’’ کہ تم اس کو نہیں جانتے وہ ہمارا کام کر رہا ہے‘‘۔ پیر صاحب کے اس دور میں تقریبا 10 لاکھ مرید تھے۔ آپ نے اعلان فرمایا تھا کہ اگر کسی نے مسلم لیگ اور قائد اعظمؒ کو ووٹ نہ دیا، وہ میرا مرید نہیں۔ آخر میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کا ایک قول جو انہوں نے قائد اعظمؒ کے لئے فرمایا "محمد علی جناح کو نہ تو خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ شخص خیانت کر سکتا ہے‘‘۔ ایک مرتبہ سرکاری استعمال کے لئے 37 روپے کا فرنیچر لایا گیا۔ قائد اعظمؒ نے لسٹ دیکھی تو سات روپے کی کرسیاں اضافی تھیں، آپ نے پوچھا یہ کس لئے ہیں تو کہا گیا کہ آپ کی بہن فاطمہ جناح کے لئے۔ آپ نے وہ کاٹ کے فرمایا کہ اس کے پیسے فاطمہ جناح سے لو۔ کابینہ کی جتنی میٹنگز ہوتی تھیں، قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے منع فرمایا تھا کہ کچھ بھی کھانے کے لئے نہ دیا جائے۔ 1933ء سے لے کر 1946ء تک قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ایک اندازے کے مطابق 17 قراردادیں پیش کیں جس میں فلسطین کے حق خود ارادیت کی بات کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان بھی وجود میں نہیں آیا تھا، مگر اس کے باوجود ان کے دل میں امت مسلمہ کے لئے جذبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا۔ اس وقت انگریزوں نے ایک قانون بنایا تھا کہ جس کے پاس بھی سائیکلیں ہیں، اس کے آگے لائٹ لگائی جائے۔ ایک مرتبہ قائد اعظمؒ کچھ نوجوانوں سے بات کر رہے تھے۔ آپ نے پوچھا کہ کون کون پاکستان میں شامل ہو گا، سب مسلمان بچوں نے ہاتھ کھڑے کئے پھر آپ نے پوچھا کہ کس کس بچے کی سائیکل پر لائٹ موجود ہے۔ اس موقع پر صرف ایک بچے نے ہاتھ کھڑا کیا۔ آپ نے فرمایا کہ صرف یہ پاکستان میں جائے گا، نوجوانوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا جو قانون پر عمل نہیں کرتا، اسے ہمارے ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ قائد اعظمؒ جب بیمار تھے تو ایک خاتون ڈاکٹر ان کی خدمت پر مامور تھیں۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے میری بہت خدمت کی ہے بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں تو اس نے کہا کہ میری ٹرانسفر میرے آبائی شہر میں کروا دیں تو آپ نے کہا کہ یہ میرا کام نہیں یہ وزارتِ صحت کا کام ہے۔ ایک دفعہ آپ گاڑی میں کہیں جا رہے تھے تو ایک جگہ ریلوے ٹریک بند ہو گیا۔ آپ کا ڈرائیور اتر کے وہاں پر موجود شخص سے کہنے لگا کہ گورنر جنرل آئے ہیں ٹریک کھولو، مگر ہمارے عظیم لیڈر اور بانی پاکستان نے فرمایا کہ نہیں اسے بند رہنے دو۔ میں ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا جو پروٹوکول پر مبنی ہو۔ محمد علی جناح وہ لیڈر تھے جن کے بارے میں انگریزوں نے بھی کہا تھا کہ اگر ہمیں پتہ ہوتا قائد اعظمؒ کو اتنی بڑی بیماری ہے تو ہم کبھی پاکستان نہ بننے دیتے، کیونکہ قائد اعظمؒ نے آخری وقت تک اپنی بیماری کو پوشیدہ رکھا۔ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ اگر میری بیماری کا ہندوؤں اور انگریزوں کو پتہ چل گیا تو ہندوستان کی تقسیم کو انگریز مؤخر کر دیں گے۔ مرنے سے پہلے آپ نے اپنے ڈاکٹر سے کہا ’’ کہ پاکستان ہرگز وجود میں نہ آتا، اگر اس میں فیضان نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل نہ ہوتا‘‘