جب میر تقی میر نے صمصمام الدّولہ کی تصحیح کی

1 تعبيرية بدھ 20 نومبر‬‮ 9102 - (صبح 01 بجکر 0 منٹ)

شیئر کریں:

جب میر تقی میر نے صمصمام الدّولہ کی تصحیح کی صمصام الدّولہ کا اصل نام خواجہ عاصم تھا اور وہ قمر الدّین خاں آصف جاہ اوّل کے دربار سے وابستہ تھے۔ شاعرانہ ذوق بلند اور زبان و بیان نہایت فصیح و شستہ۔ خود بھی فارسی میں کلام کہتے تھے۔

ایک روز ان کے ایک عزیز نے میر تقی میر سے ان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ میر محمد علی متّقی کے صاحب زادے ہیں۔ میر متّقی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اور ان کا مختصر احوال بھی گوش گزار کر دیا۔ صمصام الدّولہ نے انھیں دیکھا اور بہت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم کے مجھ پر احسانات تھے۔ لہٰذا، میں میر کے لیے ایک روپیا وظیفہ مقرّر کرتا ہوں۔

یہ سن کر میر تقی میر نے کہا کہ حضور اس سلسلے میں تحریری حُکم جاری فرما دیں تاکہ کوئی اعتراض نہ کر سکے۔ صمصام الدّولہ نے اس کے جواب میں کہا کہ ‘‘قلم دان کا وقت نہیں ہے۔

’’ اس پر میر تقی میر نے تبسّم کیا۔ صمصام الدّولہ سے رہا نہ گیا اور انھوں نے تبسّم کی وجہ دریافت کی۔

میر نے جواب میں کہا کہ اس کا سبب میرا آپ کی بات دو وجوہ سے نہ سمجھ پانا ہے۔ اوّل یہ کہ اگر آپ یہ فرماتے کہ قلم دان بردار اس وقت حاضر نہیں ہے، تو بات درست تھی۔ دوم یہ کہ آپ فرماتے کہ یہ دست خط کا وقت نہیں ہے، تب بھی درست ہوتا۔ تاہم یہ کہنا کہ وقتِ قلم دان نیست (قلم دان کا وقت نہیں ہے) کچھ انوکھی بات ہے۔ میر نے مزید کہا کہ قلم دان لکڑی کا ہونے کے باعث وقت سے واقف نہیں ہے۔ یہ سن کر صمصام الدّولہ نے خوشی کا اظہار کیا اور میر کی ذہانت کا اعتراف کیا۔

نواب صاحب سے ملاقات کے وقت ان کے ایک جملے کی تصحیح کے ساتھ میر نے زبان و بیان پر اپنی گرفت کا اظہار کر کے گویا یہ ثابت کیا کہ وہ جس کا وظیفہ مقرر کرچکے ہیں، اس عنایت کے لائق بھی ہے اور کوئی معمولی شخص نہیں ہے۔

اردو شاعری میں میر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ میر تقی میر 1722 میں پیدا ہوئے۔ آگرہ میں ان کے والد علی متقی کے نام سے مشہور تھے۔ کم عمری میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے تھے۔ کہتے ہیں یہیں سے میر کی زندگی میں مصائب و آلام کا سلسلہ شروع ہوا۔ نواب صاحب اور میر کی ملاقات کے اس دل چسپ تذکرے کے ساتھ اس عظیم شاعر کی ایک غزل بھی آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں حالت اب اضطراب کی سی ہے میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز اسی خانہ خراب کی سی ہے میر ان نیم باز آنکھوں میں ساری مستی شراب کی سی ہے