تعصّب، جس نے مسلمانوں‌ کی خوبیوں‌ کو غارت و برباد کیا

1 تعبيرية جمعرات 21 جنوری‬‮ 1202 - (سپہر 4 بجکر 84 منٹ)

شیئر کریں:

تعصّب، جس نے مسلمانوں‌ کی خوبیوں‌ کو غارت و برباد کیا انسان کی خصلتوں میں سے تعصُّب ایک بدترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔

مُتَعصِّب، گو اپنی زبان سے نہ کہے، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل و انصاف اس میں نہیں ہے۔ متعصِب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصّب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا، کیوں کہ اس کا تعصّب اُس کے بَرخلاف بات سننے، سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے، بلکہ سچّی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔

تعصُّب انسان کو ہزار طرح کی نیکیوں کو حاصل کرنے سے باز رکھتا ہے۔ اکثر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی کام کو نہایت عمدہ اور مفید سمجھتا ہے، مگر صرف تعصّب سے اس کو اختیار نہیں کرتا اور برائی میں گرفتار اور بھلائی سے بیزار رہتا ہے۔

انسان کو ہمیشہ مددگاروں کی جو دوستی اور محبّت سے ہاتھ آتے ہیں، ضرورت ہوتی ہے، مگر متعصّب تمام لوگوں سے بیزار رہتا ہے اور کسی کو دوستی اور محبّت کی طرف بجز اُن چند لوگوں کے جو اس کے ہم رائے ہیں، مائل نہیں ہوتا۔

وہ ان تمام دل چسپ اور مفید باتوں سے محض جاہل اور ناواقف رہتا ہے۔ اُس کی عقل اور اُس کے دماغ کی قوت بیکار ہو جاتی ہے اور جو کچھ اس میں سمائی ہوئی ہے اس کے سوا اور کسی بات کے سمجھنے کی اس میں طاقت اور قوّت نہیں رہتی۔ وہ ایک ایسے جانور کی مانند ہو جاتا ہے کہ اس کو جو کچھ آتا ہے، اس کے سوا اور کسی چیز کی تعلیم و تربیت کے قابل نہیں ہوتا۔

بہت سی قومیں ہیں جو اپنے تعصّب کے باعث تمام باتوں میں اعلیٰ درجے سے نہایت پست درجے کو پہنچ گئی ہیں اور بہت سے قومیں ہیں جنھوں نے اپنی بے تعصبی سے ہر جگہ اور ہر قوم سے اچّھی اچّھی باتیں اخذ کیں اور ادنیٰ درجے سے ترقی کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے پر پہنچ گئیں۔

دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس نے خود ہی تمام کمالات اور تمام خوبیاں اور خوشیاں حاصل کی ہوں بلکہ ہمیشہ ایک قوم نے دوسری قوم سے فائدہ اُٹھایا ہے، مگر متعصِب شخص ان نعمتوں سے بد نصیب رہتا ہے۔

علم میں اس کی ترقی نہیں ہوتی، ہنر و فن میں اس کی دست گاہ نہیں ہوتی، دنیا کے حالات سے وہ ناواقف رہتا ہے، عجائباتِ قدرت سے محروم ہوتا ہے، حصولِ معاش اور دنیاوی عزّت اور تموّل، مثلِ تجارت وغیرہ کے وسیلے جاتے رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ تمام دنیا کے انسانوں میں روز بروز ذلیل و خوار ہوتا جاتا ہے۔

تعصّب میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جب تک وہ نہیں جاتا، کوئی ہنر و کمال اُس میں نہیں آتا۔ تربیت و شایستگی، تہذیب و انسانیت کا مطلق نشان نہیں پایا جاتا۔