زبان و بیان کے معاملے میں علّامہ اقبال بھی آغا صاحب سے رجوع کرتے تھے

1 تعبيرية جمعہ 5 مارچ‬‮ 1202 - (صبح 11 بجکر 8 منٹ)

شیئر کریں:

زبان و بیان کے معاملے میں علّامہ اقبال بھی آغا صاحب سے رجوع کرتے تھے آغا شاعر قزلباش دہلوی ان شاعروں میں سے ایک تھے جنھیں اپنے عہد میں ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ استادِ فن ،صاحبِ کمال اور زبان داں تسلیم کیے جاتے تھے۔ ان کے سیکڑوں شاگرد تھے جب کہ علّامہ اقبال جیسی ہستیاں زبان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ آج اردو کے اسی نام وَر اور باکمال شاعر کا یومِ پیدائش ہے۔

آغا شاعر قزلباش دہلوی اپنے وقت کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے، لیکن زبان و بیان پر عبور اور اپنی خوش گوئی کے سبب نہ صرف عوام اور خواص میں شہرت و مقبولیت حاصل کی بلکہ ان کے ہم عصر اور استاد شاعر کا درجہ رکھنے والے بھی ان کے کلام کی فصاحت، روانی اور برجستگی کے پہلے ہی سے معترف تھے۔

آغا شاعر قزلباش 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ انھوں نے حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بن گیا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔

انھوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا۔ آپ کا ایک نثری مجموعہ خمارستان کے نام سے بھی شایع ہوا تھا۔

کہتے ہیں کہ اسکول کے زمانے ہی میں ان کو مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہوا۔اسی دور میں ان کی ماں کا انتقال ہو گیا اور باپ نے دوسری شادی کر لی۔ سوتیلی ماں نے انھیں قبول نہ کیا اور ستانے کے بعد گھر سے نکال دیا۔ تب انھیں ایک بیگم نے جو شاعرہ بھی تھیں، پناہ دی اور آغا کی خوش خطی دیکھ کر ان سے اپنی غزلیں لکھوانا شروع کیں۔انہی بیگم صاحبہ کے توسط سے وہ طالب دہلوی کے شاگرد ہوئے اور بعد میں دکن پہنچ کر داغ سے تعلیم و اصلاح لی۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے:

یہ کیسے بال کھولے آئے، کیوں صورت بنی غم کی تمہارے دشمنوں کو کیا پڑی تھی میرے ماتم کی

شکایت کس سے کیجے ہائے کیا الٹا زمانہ ہے بڑھایا پیار جب ہم نے محبت یار نے کم کی

جگر میں درد ہے، دل مضطرب ہے، جان بے کل ہے مجھے اس بے خودی میں بھی خبر ہے اپنے عالم کی

نہیں ملتے نہ ملیے خیر کوئی مر نہ جائے گا خدا کا شکر ہے پہلے محبت آپ نے کم کی

مزہ اس میں ہی ملتا ہے نمک چھڑکو، نمک چھڑکو قسم لے لو نہیں عادت مرے زخموں کو مرہم کی

گھٹائیں دیکھ کر بے تاب ہے، بے چین ہے شاعرؔ ترے قربان او مطرب سنا دے کوئی موسم کی