ايران اور بشار الاسد کے ساتھ "داعش" کے تعلق کا انکشاف

32 تعبيرية بدھ 13 جولائی‬‮ 6102 - (شام 11 بجکر 63 منٹ)

شیئر کریں:

 ايران اور بشار الاسد کے ساتھ "داعش" کے تعلق کا انکشاف کویت میں ایک داعشی ملزم علی عمر عُرف ابو تراب نے اپنے ساتھ ہونے والی تحقیقات میں انکشاف کیا ہے کہ اس شدت پسند تنظیم کے شامی حکومت اور ایرانی انٹیلجنس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ کویتی اخبار "الجریدہ" کی رپورٹ کے مطابق ملزم نے واضح کیا کہ وہ داعش کے شامی حکومت اور ایرانی انٹیلجنس عناصر کے درمیان اجلاسوں میں ذاتی طور پر شرکت کرچکا ہے۔ ان ملاقاتوں کا مقصد باہمی کوآرڈی نیشن کو مضبوط بنانا تھا۔اخبار اعلی سیکورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملزم علی عمر نے تنظیم کی میدانی قیادت، ان کی شہریتوں اور ان کے کام کے طریقہ کار کے بارے میں اہم انکشافات کیے ہیں۔ اخبار نے ابو تراب کو "قیمتی شکار" قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اس نے تنظیم کی قیادت کے انٹیلجنس کے ساتھ رابطوں کا انکشاف کیا۔ علی عمر اور اس کی ماں حصہ محمد (جس کو علی کے ساتھ ہی پکڑا گیا تھا) نے انٹیلجنس معلومات کے ایسے خزانے سے پردہ اٹھایا ہے جس نے داعش تنظیم کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کو چونکا ڈالا۔ کویت اس اتحاد کا ایک اہم رکن شمار کیا جاتا ہے۔ذرائع نے مزید بتایا کہ " ابو تراب" نے تنظیم کی جانب سے تیل کی اسمگلنگ اور خطے کے ممالک اور بلیک مارکیٹ میں اس کی فروخت کے طریقہ کار کی تفصیلات بتائیں۔ ابو تراب کے اعترافات کے مطابق اس چیز نے تیل کی قیمتیں کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے عالمی سطح پر داعش کے تیل کو ٹھکانے لگانے میں ملوث عناصر کے نام بھی بتائے۔ ابو تراب شام اور عراق میں تنظیم کے زیر قبضہ آئل فیلڈز کے تیل کی برآمد کے ذمہ دار ارکان میں شامل تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم کے ساتھ تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے تاکہ مزید معلومات کا انکشاف ہوسکے جو داعش کے خلاف جنگ کے لیے نقشہ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔اسی سیاق میں باخبر ذریعے نے بتایا ہے کہ ملزم نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ شام اور عراق میں داعش کے شانہ بشانہ لڑنے والے کویتیوں اور "بدوؤں" کی تعداد 100 کے قریب ہے۔ تاہم اس کو ان کے نام معلوم نہیں اس لیے کہ وہاں ناموں سے نہیں بلکہ کنیتوں سے پکارا جاتا ہے۔ذریعے کے مطابق ابو تراب نے بتایا کہ مذکورہ کویتی شہری اور "بدو" عمرہ کرنے ، تعلیمی دورہ کرنے یا ترکی میں سیاحت کا نام لے کر ملک سے نکلے۔ اس نے باور کرایا کہ اس کی والدہ کے سوا وہاں کوئی کویتی خاتون نہیں پائی جاتی۔ابو تراب کے مطابق " شام میں داعش کی قیادت عراقیوں پر مشتمل ہے۔ اس کے زیادہ تر ارکان کا تعلق تیونس ، مراکش اور الجزائر سے ہے"۔ ابو تراب کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ تنظیم کے " امیر" ابوبکر البغدادی یا اس کے نائب سے کبھی نہیں ملا اور ان دونوں سے ملاقات کی درخواست کرنا ممکن بھی نہ تھا۔ ابو تراب کے مطابق تیل کے ذمہ دار کے طور پر اس کا چناؤ ، اس کی تعلیم اور زبان پر عبور کی وجہ سے عمل میں آیا۔ابو تراب نے واضح کیا کہ داعش تنظیم اپنے وسائل کے سلسلے میں تیل اور زیرقبضہ علاقوں سے حاصل کیے گئے "جزیہ" پر انحصار کرتی ہے۔کویتی وزارت داخلہ نے پیر کے روز علی عمر (پیدائش 1988) اور اس کی والدہ حصہ محمد (پیدائش 1964) کو بیرون ملک سے پکڑنے کے بعد کویت لائے جانے کا اعلان کیا تھا۔ وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق بیٹے اور ماں دونوں نے داعش تنظیم میں شمولیت کا اعتراف کیا۔ ملزمہ نے اپنے چھوٹے بیٹے عبداللہ محمد عمر (پیدائش 1991) کو بھی داعش میں شامل ہونے پر اکسانے کا اقرار کیا۔ وہ عراق میں دہشت گرد کارروائی کے دوران مارا گیا تھا۔ عبداللہ کی موت کے بعد اس کے بھائی علی عمر نے برطانیہ میں اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع کیا جہاں وہ پیٹرولیئم انجینئرنگ کے شعبے میں زیرتعلیم تھا۔ اس نے داعش میں شامل ہو کر اپنی ماں کے ساتھ شام کے شہر الرقہ کا رخ کیا۔ وہاں پہنچ کر بیٹے نے تیل اور گیس کی فیلڈز کے آپریشن کی ذمہ داری سنبھال لی جب کہ اس کی ماں نے دہشت گرد جنگجوؤں کی بیویوں اور بچوں کی تدریس اور ان کی ذہنی اور فکری تربیت کے حوالے سے کام شروع کردیا۔