"عبوری مرحلے کا آغاز بشار کی رخصتی یا موت پر ہو گا"

945 تعبيرية اتوار 13 مارچ‬‮ 6102 - (دوپہر 2 بجکر 43 منٹ)

شیئر کریں:

"عبوری مرحلے کا آغاز بشار کی رخصتی یا موت پر ہو گا" جنیوا بات چیت میں شریک شامی اپوزیشن کے وفد میں شامل ایک سینئر مذاکرات کار محمد علوش کا کہنا ہے کہ عبوری مرحلے کا آغاز شامی حکومت کے سربراہ بشار الاسد کے "اقتدار چھوڑنے" یا "ان کی موت سے" ہوگا۔ انہوں نے کہا شامی وزیر خارجہ ولید المعلم کا آخری بیان "توجہ کے قابل نہیں" ہے۔ جنیوا میں اپنی قیام گاہ پر میڈیا نمائندوں کے ایک چھوٹے سے گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے علوش کا کہنا تھا کہ "موجودہ حکومت یا اس حکومت کے سربراہ کے اقتدار میں رہنے تک عبوری مرحلے کا آغاز ممکن نہیں"۔ شام میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے 350 سے زیادہ خلاف ورزیاں سامنے آچکی ہیں.. اور جنگ بندی کی ہر خلاف ورزی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ شامی اپوزیشن کی نمائندگی کرنے والے مذاکراتی وفد کے سربراہ اسعد الزعبی اور سینئر مذاکرات کار محمد علوش ہفتے کے روز جنیوا پہنچے.. جہاں وہ پیر کے روز سے شروع ہونے والے مذاکرات کے نئے دور میں شرکت کریں گے۔ اپوزیشن کی جانب سے شامی حکومت کے وزیر خارجہ ولید المعلم کے اشتعال انگیز بیان کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ بشار الاسد کے بغیر عبوری کمیٹی چاہتی ہے۔ یہ وہ موقف ہے جو المعلم کی جانب سے مسترد کیا جاچکا ہے.. ساتھ ہی شامی وزیر خارجہ نے شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن ڈی مستورا کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا. ولید المعلم نے ہفتے کے روز دمشق میں ایک پریس کانفرنس میں باور کرایا تھا کہ اگر جنیوا مذاکرات کا مقصد اقتدار کی منتقلی ہے تو پھر یہ مذاکرات ناکام ہوجائیں گے۔ المعلم کا کہنا تھا کہ "اقوام متحدہ کے دستاویزات میں ایوان صدارت میں عبوری مرحلے سے متعلق کوئی بات موجود نہیں.. اس لیے عبوری مرحلے کے مفہوم پر آمادگی ناگزیر ہے.. ہمارے نزدیک اس کا مطلب موجودہ آئین سے ایک نئے آئین کی طرف منتقلی اور موجودہ حکومت سے ایک ایسی حکومت کی طرف منتقلی ہے جس میں دوسرا فریق بھی شریک ہو"۔ شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن ڈی مستورا نے جمعے کے روز اعلان کیا تھا کہ جنیوا میں 14 سے 24 مارچ تک ہونے والے مذاکرات میں "3 معاملات زیربحث آئیں گے جن میں ایک نئی جامع حکومت کی تشکیل، نیا آئین اور مذاکرات کے آغاز کی تاریخ 14 مارچ سے 18 ماہ کے اندر انتخابات کا اجراء شامل ہیں"۔ ولید المعلم کا کہنا ہے کہ مستورا کو شام میں صدارتی انتخابات کے بارے میں بات کرنے کا "کوئی حق نہیں" ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "پارلیمانی انتخابات کا ذکر ویانا دستاویزات میں واضح طور پر موجود ہے تاہم جہاں تک صدارتی انتخابات کا تعلق ہے تو کسی کو بھی اس کے بارے میں بات کرنے کا حق نہیں.. یہ شامی عوام کا خصوصی حق ہے"۔ المعلم نے دوٹوک انداز میں کہا کہ حکومتی وفد جنیوا میں 24 گھنٹوں سے زیادہ انتظار نہیں کرے گا، اس دوران اگر مذاکرات شروع نہ ہوئے تو وفد واپس آجائے گا۔ ان کے مطابق بشار الاسد "سرخ لکیر" کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شامی وزیر خارجہ نے کہا کہ "ہم کسی ایسی شخصیت سے بات چیت نہیں کریں گے جو ایوان صدارت کی بات کرے.. بشار الاسد سرخ لکیر ہیں اور وہ شامی عوام کے لیے بادشاہ ہیں.. اگر اسی روش کو جاری رکھنا ہے تو پھر کسی کو جنیوا آنے کی ضرورت نہیں"۔ شامی وزیر خارجہ 5 سال سے زیادہ عرصے سے جاری اس انقلابی تحریک کو بھلا بیٹھے جو اس موجودہ حکومت اور اسی صدر کے خلاف جاری ہے جسے ولید المعلم سرخ لکیر قرار دے رہے ہیں۔ مذاکرات کے تابوت میں آخری کیل دوسری جانب شامی مذاکرات کی سپریم کمیٹی کے سرکاری ترجمان منذر ماخوس نے الحدث نیوز چینل کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو میں کہا کہ اقتدار کی منتقلی کو مسترد کرنا.. مذاکرات کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے سوا کچھ نہیں.. بالخصوص محاصرے کے خاتمے اور متاثرہ قصبوں میں امدادی سامان کے داخلے کے ساتھ ساتھ اہم ترین معاملہ عبوری حکومت کا ہے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا المعلم کی جانب سے موجودہ حکومت کے زیرسایہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے متعلق بات ایک بڑی آفت جیسی ہے۔ ان بیانات سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ شامی حکومت تمام بین الاقوامی قراردادوں کی مخالف ہے۔