سَر راس مسعود: مسلمانوں کی تعلیمی اور تہذیبی زندگی کا ایک روشن باب

1 تعبيرية جمعہ 30 جولائی‬‮ 1202 - (دوپہر 3 بجکر 82 منٹ)

شیئر کریں:

سَر راس مسعود: مسلمانوں کی تعلیمی اور تہذیبی زندگی کا ایک روشن باب راس مسعود اردو کے فاضل ادیب اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم خیر خواہ اور مصلح و راہ بَر سرسیّد احمد خان پوتے تھے۔ راس مسعود 30 جولائی 1938ء کو دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

سیّد محمود کے گھر 15 فروری 1889ء کو آنکھ کھولنے والے راس مسعود نے گھر پر مذہبی تعلیم کے ساتھ ابتدائی کتب کی مدد سے لکھنا پڑھنا سیکھا اور پانچ سال کی عمر میں اسکول جانے لگے۔ بعد میں راس مسعود کو علی گڑھ کالج کے پرنسپل مسٹر موریسن اور ان کی بیگم کی نگرانی میں دے دیا گیا جنھوں نے ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا اور کچھ عرصے بعد راس مسعود کو انگریزی وظیفے پر مزید تعلیم کے لیے آکسفورڈ بھیج دیا گیا۔

راس مسعود 1929ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر منتخب ہوئے۔ راس مسعود انجمن ترقیِ اردو کے بھی صدر تھے۔ انھوں نے تحریکِ آزادی کے حوالے سے تحریر و تقریر اور جلسوں میں شرکت کی اور ان کی چند تحریر اور تالیف کردہ کتب میں انتخابِ زرین، سرسیّد کے خطوط، اردو کے مستند نمونے شامل ہیں۔ انھوں نے حیدرآباد دکن میں بھی ملازمت کی اور بھوپال میں بھی وقت گزارا تھا۔

شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے دوستوں اور احباب کا حلقہ خاصا وسیع تھا، لیکن جن لوگوں سے اُنھیں ایک گہرا اور دلی تعلق خاطر تھا، وہ گنے چُنے ہی تھے اور ان میں سر راس مسعود کا نام سر فہرست ہے۔ 1933ء میں آپ افغانستان کے دورہ میں اقبال کے ہمراہ تھے۔ اقبال نے ان کی اچانک وفات پر “مسعود مرحوم” کے عنوان سے نظم بھی لکھی۔

راس مسعود کا انتقال ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی اور تہذیبی زندگی کا ایک الم ناک سانحہ تھا۔