شوگرملزآڈٹ کے نتیجے میں 619ارب روپےکی ٹیکس چوری سامنے آئی، شہزاد اکبر

1 تعبيرية ہفتہ 16 اکتوبر‬‮ 1202 - (صبح 11 بجکر 51 منٹ)

شیئر کریں:

شوگرملزآڈٹ کے نتیجے میں 619ارب روپےکی ٹیکس چوری سامنے آئی، شہزاد اکبر اسلام آباد : وزیراعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے شوگرملزآڈٹ کے نتیجے میں 619ارب روپےکی ٹیکس چوری سامنے آئی، ایف بی آر ایک نظام لارہا ہے جس سےشوگرملزکی نگرانی ہوگی۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کرتے احتساب کے لیے لازمی ہے کہ اوپن انکوائریز ہوں، ماہرین کے ذریعے انکوائریز کی گئیں، انکوائری کے بعد شوگر انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔

شوگر انکوائری سے متعلق شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ شوگر انکوائری کمیشن کیلئے وزیراعظم نے ٹیم بنائی، ٹیم کی مشاورت سےانکوائری کمیشن بنایاگیا ، انکوائری رپورٹ میں کافی انکشافات ہوئے، شوگر انکوائری کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں کارروائی کی گئی، چینی کی بلیک مارکیٹنگ میں ٹیکس کا نقصان ہوتا ہے۔

شوگرملزآڈٹ کے حوالے سے مشیر احتساب نے کہا کہ شوگرملزآڈٹ کےنتیجے میں 619 ارب روپے کی ٹیکس چوری سامنے آئی، 89 ملز کاآڈٹ مکمل کرکےٹیکس کا نٖفاذ کردیا گیا، 89 ملز میں سے بعض ایسی ہیں جن کے آڈٹ نہیں ہوئے ، شوگرکمیشن کی انکوائری کے نتیجے میں یہ بہت بڑی کامیابی تھی، اقدام کے بعد شوگرملز سے ٹیکس دوگنا بڑھ گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض شوگرملوں نے کورٹ سے اسٹے لے رکھا ہے ، گزشتہ سال شوگر ملز سے ٹیکس کی مد میں د گنا اضافہ ہوا ، کارٹلائزیشن پر 44 ارب کا جرمانہ عائد کیاگیا جبکہ شوگرمافیا سٹہ بازوں کے خلاف آپریشن کیا گیا، شوگرمیں سٹہ بازی کےعمل کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ ماضی میں جو ریٹ حکومت مقررکرتی تھی وہ کسانوں کو نہیں ملتا تھا، موجودہ حکومت میں کسانوں کے تمام واجبات ادا کیےگئے، چینی کی مقررہ قیمت پرسپلائی ایک چیلنج ہےاس پرکام جاری ہے۔

مشیر احتساب کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے سٹے بازوں کے خلاف آپریشن کیا، ایف بی آر نے 13اعشاریہ 8روپے کی لائیبلٹی لگائی ، ایف بی آرایک نظام لارہاہےجس سےشوگرملزکی نگرانی ہوگی، اس نظام کو رکوانے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔

انھوں نے مزید کہا آیندہ کرشنگ سیزن سے پہلےٹریک اینڈٹریس سسٹم نافذ ہوجائےگا، گنے کی کاشت اورشوگر سے متعلق ریکارڈ ایف بی آر کے پاس ہوگا، ریکارڈکی مدد سے ٹیکس چوری کو بھی روکا جاسکے گا ، حکومت اگر اچھا کام کررہی ہے تو اسے سپورٹ کرنا چاہیے، یہ سب کچھ انکوائری کمیشن کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

پیٹرول انکوائری سے متعلق شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ پہلے پیٹرول کی قیمت کم ہونے سے اس کی قلت پیدا ہوگئی تھی، اس معاملے کے بھی انکوائری کی گئی تھی، انکوائری میں سامنے آیا ، کمپنیوں کی وجہ سے عوام کو فائدہ نہیں پہنچا ، کمیشن نے بتایا کہ 2ہزار سے زائد غیر قانونی پیٹرول پمپس ہیں، 2ہزارغیر قانونی پیٹرول پمپس کو بند کردیا گیا، 3اعشاریہ5 ارب کا نقصان ہوا تھا جو کمپنیوں سے ریکیور کیا جارہا ہے۔

براڈ شیٹ کے حوالے سے مشیر احتساب نے کہا کہ براڈشیٹ انکوائری کمیشن میں سامنے آیا ملک کا مقدمہ درست طریقے سے نہیں لڑا گیا، حکومت پاکستان 2009 سے 2018 تک مقدمہ بہتر تحقیقات میں غفلت برتنے والوں کا پتا چلایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہرمعاملے کی انکوائری کرنا اور غلطی پڑنا ضروری ہے، غلطی پکڑ کر اس کو درست کرنا ضروری ہے، انکوائریز سے نظام کو درست کرنے میں مدد ملے گی ، ہمیں ملک کے قانونی نظام کےلیے ملک کر کام کرنا چاہیے، یہ ضروری ہے کہ کیس کا فیصلہ فوری ہو۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے شہزاد اکبر نے کہا کہ اوگرا نے کتنی سمری بھیجی کتنی منظوری ہوئی مجھے اس کا علم نہیں ، وزیراعظم کی کوشش ہوتی ہے عوام پرکم سے کم بوجھ پڑے ، عالمی منڈی کے حساب سے قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں، عالمی سطح پر پیٹرول کی قیمتیں بڑھیں جس کا اثر پاکستان پر ہوا، عالمی طورپرقیمت بڑھے تو چیزیں وزیراعظم کے بس سے بھی باہر ہوتی ہیں۔

مشیر احتساب کا کہنا تھا کہ نیب آرڈیننس کےتحت زرداری عدالت سے ریلیف لینے گئے ، عدالت نے آصف زرداری کی درخواست مسترد کر دی، آصف زرداری اسی نیب آرڈیننس کےتحت فائدہ لینےعدالت گئے، کسی کو ریلیف ملنا ہے یا نہیں یہ عدالتوں کا کام ہے، ماضی میں کسی کو بھی نیب سےکوئی مسئلہ نہیں تھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ جو پبلک آفس ہولڈر نہیں اس کا معاملہ نیب میں نہیں جانا چاہیے، ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد کچھ تکنیکی دشواریاں آرہی ہیں، دشواریوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔