ایران شام کی ساحلی پٹی میں اپنا اثرونفوذ کیسے پھیلا رہا ہے؟

26 تعبيرية جمعہ 24 جون‬‮ 6102 - (صبح 9 بجکر 9 منٹ)

شیئر کریں:

ایران شام کی ساحلی پٹی میں اپنا اثرونفوذ کیسے پھیلا رہا ہے؟ شام کے اندرونی معاملات میں مبینہ دخل اندازی سے لے کر شام کی سرزمین کو اپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کرنے تک ایران بدنامی کی حد تک مشہور ہے۔ شام کی ساحلی پٹی بالخصوص اللاذقیہ شہر کے آس پاس کے مقامات پر کچھ عرصے تک صدر بشارالاسد کے چچا جمیل الاسد اپنے ایک گروپ کے ہمراہ سرگرم رہے۔ انہوں نے ساحلی علاقوں میں ایرانی اثرو نفوذ میں اضافے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ اس وقت صدر اسد کے آبائی شہر اور اہم ترین ساحلی علاقے اللاذقیہ میں ’ السید ایمن زیتون‘ نامی ایک شخصیت کا کافی چرچا ہے۔ ایمن زیتون کون ہیں اور وہ اللاذقیہ میں کیا کر رہے ہیں؟ اس رپورٹ میں اسی بنیادی سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق السید ایمن زیتون ایک سخت گیر شیعہ مذہبی شخصیت ہیں اور وہ اس وقت اللاذقیہ میں قائم ’’رسول اعظم اکیڈیمی‘‘ نامی ادارے کے ڈائریکٹر کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دراصل وہ ساحلی پٹی میں ایرانی اثرو نفوذ کو آگے بڑھاتے ہوئے صدر بشار الاسد اور ایران کے ایک ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ رسول الاعظم اکیڈیمی ایک کثیر شعبہ ادارہ ہے، جس کے زیراہتمام کئی تعلیمی ادارے، اسکول، انسٹیٹیوٹ، لائبریریاں، اسکاؤٹس ٹریننگ سینٹر اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ رسول الاعظم اکیڈیمی کے زیرانتظام ادارے ایک طرف جنوب میں بانیاس اور طرطوس میں ہیں اور دوسری جانب شمالی گورنری ادلب تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یوں یہ ادارہ تعلیمی سرگرمیوں کی آڑ میں شام کے جنوب، شمال، شمال مغرب اور اقصیٰ شمال تک ایران کے اثرو نفوذ کو بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ اس ادارے کی جڑیں وسطی شہر حمص تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جمہوریہ اکیڈیمی الرسول الاعظم کمپلیکس یا اکیڈیمی وسیع وعریض علاقوں میں پھیلاؤ کے باعث جمہوریہ اکیڈیمی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ اس کا ہیڈ کواٹر اللاذقیہ میں قائم ہے جہاں اس کے زیراہتمام کئی اسکول، مذہبی ادارے، لائبریریاں، ایک ریڈیو اور کئی دوسرے شعبے قائم ہیں۔ الرسول الاعظم اکیڈیمی کے ماتحت’کفالۃ فرزندان شہداء‘ کے نام سے بھی ایک ادارہ قائم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سپریم خواتین کونسل، انسٹیٹیوٹ برائے ترقی اور ’’الولاء اسکاؤٹس‘‘، ایمرجنسی طبی مرکز، فضلاء رابطہ گروپ، میڈٰیا سینٹر، مالی اور انتظامیہ شعبہ جات، المہدی انفارمیشن سینٹر جسے عرف عام میں ثقافت و ترقی مرکز کا نام دیا گیا ہے۔ جہاں تک رسول الاعظم اکیڈمی کی حکمت عملی اور پالیسی کا تعلق ہے تو وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’فیس بک‘ پر موجود اس کے صفحے پر اکیڈمی کی پالیسی کامطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ فیس بک پرموجود حکمت عملی میں واضح کیا گیا ہے کہ اس ادارے کا اہم مقصد اہل بیت مسلک کے شرعی اصولوں کی تعلیم وتدریس اور نشر و اشاعت ہے۔ خواتین کی سپریم کمیٹی اور دیگر اداروں کے بھی یہی مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر ایمن زیتون کون؟ الرسول الاعظم اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایمن زیتون ایک سخت گیر شیعہ مذہبی رہ نما ہیں۔ حکومت کی جانب سے انہیں ’سر‘ کا لقب دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ایمن زیتون کا آبائی تعلق شمالی ادلب کے الفوعہ قصبے سے ہے۔ الفوعہ شیعہ مسلک کا اکثریتی علاقہ ہے اور یہ شام کی جنگوں کے حوالے سے کافی مشہور رہا ہے۔ ڈاکٹر ایمن زیتون کی پروفائل پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایران کے مذہبی مرکز’’قم‘‘ سے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ کئی سال تک ایران ہی میں مقیم رہے۔ بالاخر ایران نے انہیں شام میں اپنا مذہبی سفیر قرار دیتے ہوئے واپس بھیجا۔ وہ الفوعہ میں مختلف مذہبی مراکز کے نگران رہے اور آج کل اللاذقیہ میں قائم الرسول اعظم اکیڈمی کے سربراہ ہیں۔ جہاں تک الرسول الاعظم اکیڈیمی کے اداروں کے پورے نیٹ ورک کے قیام کے بانیان کا تعلق ہے تو ان میں سر فہرست الشیخ جواد عادل امین شامل ہیں۔ انہوں نے بھی ایران کے مذہبی مرکز ’’قم‘‘ سے شیعہ مذہب کی تعلیم حاصل کی۔ مذہبی تعلیم کے حصول کے ساتھ کئی دوسرے شعبوں میں انہیں ایران کی جانب سے اسناد فضیلت بھی جاری کی جا چکی ہیں۔ ہلال الاسد کے جنازے کی امامت شام کی ساحلی پٹی کو نظریاتی طور پر اور عقائد کے لحاظ سے شیعہ مذہب کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پر علوی قبیلے کی اکثریت ہے۔ یہی وجہ کہ یہاں کا ماحول شیعہ افکار ونظریات سے کافی متاثر ہے۔ صدر بشارالاسد بھی چونکہ ساحلی شہر اللاذقیہ اور علوی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے انہیں بھی الرسول الاعظم اکیڈیمی کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے۔ اللاذقیہ اور اس کے آس پاس کے شہروں القرادحہ، اور جبلہ کے علاقوں کے سیکڑوں طلباء اس اکیڈیمی کے تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں۔ یوں اس نیٹ ورک نے پورے ساحلی علاقے کو اپنی مضبوط گرفت میں لے رکھا ہے۔ اللاذقیہ میں رسول الاعظم اکیڈیمی کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں الگ سےذیلی ادارے بھی قائم ہیں۔ ذیلی اداروں کا نیٹ ورک القرادحہ اورالجبلہ وغیرہ میں بھی موجود ہے۔ طرطوس اور بانیاس جیسے شہروں میں اسکاؤٹس اسکول قائم ہیں۔ اللاذقیہ شہر میں ہونے والی اہم شخصیات کی اموات اور ان کی نماز جنازہ میں الرسول الاعظم اکیڈیمی کے سربراہ کو خاص طورپر شرکت کاموقع دیا جاتا ہے اور وہی ان کی نماز جنازہ کی امامت بھی کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پیشتر اللاذقیہ میں باغیوں کے ساتھ جھڑپ میں صدر بشارالاسد کے چچا زاد ھلال الاسد ہلاک ہوگئے تو ان کی نماز جنازہ کی امامت بھی ایمن زیتون نے کرائی تھی۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق الرسول الاعظم اکیڈیمی کے زیراہتمام مذہبی اسکولوں میں زیرتعلیم طلباء کو نہ صرف اہل تشیع کے مذہب کی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ ان میں ایران، اہل تشیع اور لبنانی حزب اللہ کے ساتھ ہمدردی اور وفاداری کا بھی درس دیا جاتا ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں جہاں ایک طرف ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی کی تصاویر کے ساتھ بشارالاسد کی تصاویر موجود ہیں وہاں حسن دیواروں پر حسن نصراللہ کے پوسٹر بھی آویزاں دکھائی دیتے ہیں۔ ایمن زیتون کے سوشل میڈیا بالخصوص ویڈیو شیئرنگ ویب سائیٹ’یوٹیوب‘ پر بڑی تعداد میں تقاریر بھی موجود ہیں۔ ان تقاریر میں مسٹر زیتون کا کہنا ہے کہ ’’اہل بیت کے ماننے والوں کے ہاں ایک نظریہ ’تقیہ‘‘ بھی رہا ہے۔ ہم نے طویل عرصے تک امویوں، عباسیوں، سلجوقوں اور ترکوں کے مظالم برداشت کیے ہیں۔ ہم اس پورے عرصے میں صرف دعا پر اکتفا کرتے رہے ہیں مگر ہمیں اپنے نجات دہندہ امام منتظر کا انتظار رہا ہے۔ انتظار کے عرصے میں ہم صرف نماز روزہ کا اہتمام کرتے تھے ہمارے پاس کوئی عملی پروگرام نہیں تھا۔ یہاں تک امام ظاہر ہو اور ہماری طرف سے ظلم کا مقابلہ کرے‘‘۔