دیدۂ بینا

3 تعبيرية اتوار 15 جنوری‬‮ 3202 - (سپہر 5 بجکر 83 منٹ)

شیئر کریں:

دیدۂ بینا ادب کیا ہے اس کی ابتداء کب سے ہے، انسانی زندگی کا سے اس کا کیا تعلق ہے۔ سماج میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اربابِ فکر و ادب نے اسے کن نگاہوں سے دیکھا ہے۔ اس پر تفصیل سے گفتگو ہوسکتی ہے۔

بلکہ اربابِ ادب نے کی بھی ہے۔ یہاں تفصیل سے گریز کرتے ہوئے ہم صرف اس تعلق سے گفتگو آگے بڑھاتے ہیں کہ آخرتاریخ کا ادب سے کیا رشتہ ہے اور کیا جس طرح تاریخ، انسانی ذہن، افسانی فکر اور سماج پر اثرات مرتب کرتی ہے، اسی طرح ادب بھی انہی عوامل و اثرات سے کام لیتا ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے جچی تلی اور پختہ بات مجنوں گورکھپوری نے کہی کہ:

"ادیب کوئی راہب یا جوگی نہیں ہوتا، اور ادب ترک یا تپسیا کی پیدوار نہیں ہے۔ ادب بھی اسی طرح ایک مخصوص ہیئتِ اجتماعی، ایک خاص نظامِ تمدن کا پروردہ ہوتا ہے۔ جس طرح کہ کوئی دوسرا فرد اور ادب بھی براہِ راست ہماری معاشی اور سماجی زندگی سے اُسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح ہمارے دوسرے حرکات وسکنات۔ ادیب کو خلاق کہا گیا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ قادرِ مطلق کی طرح صرف ایک ‘کُن’ سے جو جی چاہے اور جس وقت جی چاہے پیدا کرسکتا ہے۔ شاعر جو کچھ کہتا ہے اس میں شک نہیں کہ ایک اندرونی اُپچ سے مجبور ہو کر کہتا ہے جو بظاہر انفرادی چیز معلوم ہوتی ہے۔ لیکن دراصل یہ اُپچ اُن تمام خارجی حالات و اسباب کا نتیجہ ہوتی ہے جس کو مجموعی طورپر تمدن یا ہیئتِ اجتماعی کہتے ہیں۔ شاعر کی زبان الہامی زبان مانی گئی ہے۔ مگر یہ الہامی زبان درپردہ زمانہ اور ماحول کی زبان ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تاریخِ ادب کی اصطلاح کے کوئی معنی نہ ہوتے۔”

"جرمنی کے مشہور فلسفی ہیگل نے فلسفے کو تاریخ مانا ہے۔ یعنی فلسفہ نام ہے انسان کے خیالات و افکار کے آگے بڑھتے رہتے اور زمانے کے ساتھ بدلتے رہنے کا۔ اسی طرح ادب بھی تاریخ ہے جس میں کسی ملک یا کسی قوم کے دور بہ دور بدلتے ہوئے تمدن کی مسلسل تصویریں نظر آتی ہیں۔ البتہ اس کے لیے دیدۂ بینا درکار ہے۔ فنونِ لطیفہ بالخصوص ادیبات کسی نہ کسی حد تک قوموں کے عروج و زوال کا آئینہ ضرور ہوتے ہیں۔”

(ڈاکٹر مرزا صبا عالم بیگ کے مضمون تاریخ و ادب کا باہمی رشتہ سے اقتباس)