اردو کے مقبول شاعر اور ‘نظمانے’ کے موجد محسن بھوپالی کا تذکرہ

11 تعبيرية منگل 17 جنوری‬‮ 3202 - (دوپہر 2 بجکر 8 منٹ)

شیئر کریں:

اردو کے مقبول شاعر اور ‘نظمانے’ کے موجد محسن بھوپالی کا تذکرہ محسن بھوپالی اردو کے اُن شعراء میں سے تھے جنھوں نے خود کو رائج اصنافِ سخن میں طبع آزمائی تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کے تخلیقی جوہر اور کمالِ‌ فن نے کوچۂ سخن کی رونق میں نظمانے کی صورت میں خوب صورت اضافہ بھی کیا۔ آج محسن بھوپالی کی برسی ہے۔

اردو کے اس مقبول شاعر نے غزل جیسی معتبر اور معروفِ عام صنفِ سخن کو اپنی فکر اور ندرتِ خیال کے ساتھ اس طرح سجایا کہ ہم عصر شعرا سے بھی داد پائی اور نقّادوں نے بھی ان کے فن کو سراہا۔ محسن بھوپالی کی شاعری نے علمی و ادبی حلقوں کی پذیرائی اور ہر سطح پر باذوق قارئین سے قبولیت کی سند پائی۔ وہ 17 جنوری 2007ء کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا۔ انھوں نے 1932ء میں بھوپال کے قریب واقع ہوشنگ آباد کے ایک قصبے سہاگپور میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ محسن بھوپالی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کے بعد 1952ء میں محکمۂ تعمیرات حکومتِ سندھ میں ملازمت اختیار کر لی۔ ان کی ملازمت کا سلسلہ 1993ء تک جاری رہا۔ اسی عرصے میں انھوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

ملازمت اور حصولِ تعلیم کے دوران محسن بھوپالی کا ادب اور شاعری سے تعلق مضبوط تر ہوتا رہا اور ان کی شاعری مختلف اخبارات، ادبی رسائل کی زینت بنتی رہیں۔ انھیں علمی و ادبی حلقوں میں پہچان ملی تو کراچی اور ملک بھر میں منعقدہ مشاعروں میں شرکت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور وہ عوام میں بطور شاعر مشہور ہوگئے۔ محسن بھوپالی نے شعر گوئی کا آغاز 1948ء میں کیا تھا۔

محسن بھوپالی کے مجموعہ ہائے کلام شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت کے عنوان سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتابوں میں قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعۂ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقدِ سخن شامل ہیں۔

محسن بھوپالی کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے دعوت نامے بھی تقسیم کیے گئے تھے۔

ان کے کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے اور یہ قطعہ بھی محسن بھوپالی کی پہچان بنا۔

تلقینِ صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

محسن بھوپالی کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا

پاکستان کی معروف گلوکارہ گلبہار بانو کی آواز میں‌ محسن بھوپالی کی ایک غزل آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے جس کا مطلع ہے۔

چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

محسن بھوپالی کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔