آرٹ بکوالڈ کا تذکرہ جنھوں نے امریکا کے اعلیٰ طبقات کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا

7 تعبيرية منگل 17 جنوری‬‮ 3202 - (سپہر 4 بجکر 81 منٹ)

شیئر کریں:

آرٹ بکوالڈ کا تذکرہ جنھوں نے امریکا کے اعلیٰ طبقات کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا نکتہ رس اور تیز فہم آرٹ بکوالڈ نے زندگی کا خوب مطالعہ کیا اور اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے سے جو کچھ حاصل کیا، اسے اپنے کالموں کے ذریعے قارئین تک پہنچا دیا۔ انھیں امریکی سماج اور سیاست کا نکتہ چیں کہہ سکتے ہیں۔

آرٹ بکوالڈ (art buchwald) مشہور کالم نویس تھے۔ وہ اپنی قوّتِ مشاہدہ اور حسِّ ظرافت کے زیرِ اثر واشگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو اس خوب صورتی سے اپنی تحریر میں سموتے تھے کہ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ لاکھوں لوگ آرٹ بکوالڈ کے مداح تھے۔ دنیا بھر میں انھیں بہترین طنز نگار مانا گیا۔

بکوالڈ نے امریکا کے ایک مؤقر اور کثیرالاشاعت اخبار کے لیے 40 سال تک کالم لکھے جو ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوئے۔ آرٹ بکوالڈ کی کتابوں کی تعداد 33 تھی۔

کالم نگار کی حیثیت سے سماجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات کے ساتھ آرٹ بکوالڈ کو ان کے گہرے طنزیہ اور تیکھے جملوں نے امریکیوں میں مقبول بنایا۔ ان کا ایک مشہور جملہ ہے، ’اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصے تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔‘

صرف امریکا میں ان کے مداح لاکھوں میں تھے۔ بعد میں انھیں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایک طنز نگار کے طور پر شہرت حاصل ہوئی۔ بکوالڈ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پانچ سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی اخبارات میں لکھتے رہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں بکوالڈ کی شایع شدہ تحریروں پر نظر ڈالیں تو وہ سیاست اور سماج پر گہری چوٹ کرتے ہیں جس نے انھیں ایک بیدار مغز قلم کار کی حیثیت سے ہم عصروں میں بھی ممتاز کیا۔

امریکا اور دنیا بھر میں اپنا زورِ‌ قلم اور طنز و مزاح کو منوانے والے بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔ ’ٹو سون ٹو سے گڈ بائے‘ وہ کتاب تھی جسے بکوالڈ نے اپنی وفات سے ایک برس قبل اشاعت کے لیے ناشر کے سپرد کیا تھا۔

آرٹ بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں اس وقت شائع ہوا جب وہ پیرس میں رہائش پذیر تھے۔ انھوں نے بعد میں وطن واپس آکر اخبارات کے لیے ہزاروں کالم لکھے جس میں خاص طور امریکا میں اعلیٰ طبقے اور اشرافیہ پر گہرا طنز ملتا ہے۔ انھوں نے اپنا عروج 1970ء کی دہائی کے آغاز میں دیکھا۔

بکوالڈ کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ وہ نیویارک کے ایک یہودی گھرانے کے فرد تھے۔ اپنے والد کے کاروبار میں ناکامی کے بعد انھیں کئی برس یتیم خانے میں گزارنا پڑے۔

1982ء میں بکوالڈ کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی اخباری تبصروں پر پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر مقدمہ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ کو عدالتی فیصلے کے بعد نو لاکھ ڈالر ملے۔ اسی مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے امریکی قوانین میں یہ تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کے بنیادی خیال پر فلم بندی کے لیے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

آرٹ بکوالڈ کی تحریروں کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ارد گرد بکھرے ہوئے موضوعات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے اور اپنے مختصر جملوں میں چونکا دینے والی باتیں کر جاتے۔ ان کا طرزِ بیاں دل پذیر اور شگفتہ ہوتا تھا جو طنز مزاح کی چاشنی میں‌ ڈھل کر بلیغ و بامقصد ہوجاتا۔ آرٹ بکوالڈ کی شہرت اور مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور اہلِ قلم اور کالم نگار ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔