عظیم مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی اور پتنگ بازی

11 تعبيرية منگل 17 جنوری‬‮ 3202 - (سپہر 5 بجکر 83 منٹ)

شیئر کریں:

عظیم مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی اور پتنگ بازی عبدالرّحمٰن چغتائی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ فنِ‌ مصوّری میں انھوں نے اسلامی، ہندو، بدھ ازم، مغل اور پنجاب کی زندگی کو اس تسلسل اور کمال سے پیش کیاکہ مصوّرِ مشرق کہلائے۔ چغتائی صاحب کی تصاویر دنیا کی مشہور آرٹ گیلریوں میں موجود ہیں۔

آج اس عظیم مصوّر کی برسی ہے۔ وہ 17 جنوری 1975ء کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی ہی اخترا ع اور ان کے کمالِ فن کا نمونہ ہیں۔

پاکستان کے عظیم مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی نے 21 ستمبر 1897ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔1914ء میں میؤ اسکول آف آرٹس لاہور سے ڈرائنگ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد استاد میراں بخش سے مصوّری کے اسرار و رموز سیکھے اور پھر میؤ اسکول میں ہی تدریس کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ 1919ء میں جب انھوں نے ہندوستانی مصوّری کی ایک نمائش میں شرکت کی تو اپنے فن کی پذیرائی نے بڑا حوصلہ دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے فن پارے کلکتہ کے رسالے ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجے جنھیں بہت سراہا گیا۔ یوں چغتائی کا پہلا شاہکارِ فن 1919ء میں وجود میں آیا اور دنیائے مصوری میں ان کی آمد کا شور بھی ہوا۔ چغتائی صاحب نے اس فن میں جداگانہ اسلوب اور فن کارانہ روش اختیار کی اور یہ اس قدر مشہور ہوا کہ اس اسلوب کو ’’چغتائی آرٹ ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ انھوں نے اقبال اور غالب کی شاعری کو اپنے فن کی بدولت نقشِ‌ دل پذیر بنا دیا۔ ان کی یہ کاوش ہم عصروں میں چغتائی صاحب کی انفرادیت اور امتیاز بن گئی۔ ناقدین نے چغتائی صاحب کو دو روایتوں کا امین کہا ہے جو ایک طرف ترک، ایرانی اور مغل مصوری پر مبنی تھا تو دوسری جانب ہندوستانی مصوری کی بنیاد پر مبنی بنگالی آرٹ تھا۔

عبدالرّحمٰن چغتائی کی برسی پر ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہم ریاض احمد کی کتاب سے چند یادیں نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گی۔ وہ لکھتے ہیں:

"چغتائی صاحب سرورق بنانے کا کوئی معاوضہ قبول نہیں کرتے تھے۔ وہ یہ کام اس نیّت سے کرتے تھے کہ ان کے فن کی زکوٰۃ نکلتی رہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل برصغیر بھر سے جو فرمائش بھی انہیں ملی، انہوں نے اس کا احترام کیا اور سرورق بنا کر بھجوا دیا۔

جان، انجان کی بات ہی نہیں تھی۔ اس پر میں نے کئی لوگوں کو حیران ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی چغتائی صاحب ان کی کتاب کا سرورق بنا دیں گے۔ اور وہ بھی بلا معاوضہ! لوگ سمجھتے تھے وہ کم از کم ہزاروں روپے مانگیں گے۔

چغتائی صاحب ع کے بھی بے حد شوقین تھے۔ ہمیشہ سفید رنگ کی ایک خاص سائز کی پتنگ اڑاتے تھے۔ ہوا کا رُخ ہمارے گھر کی طرف ہوتا تو ان کی پتنگ کو دیکھتے ہی ہم پہچان جاتے کہ چغتائی صاحب شوق پورا کر رہے ہیں۔

کبھی میں ابا جی (نذیر احمد چودھری) کی طرف سے سرورق بنانے کے لیے کہنے جاتا یا ان کے وعدے کے مطابق سرورق لینے کے لیے جاتا تو دروازے پر لگی گھنٹی بجاتا۔ وہ تیسری منزل کی کھڑکی کھول کر نیچے جھانکتے، مجھے دیکھتے اور کھڑکی بند کر کے خود سیڑھیاں اتر کر نیچے تشریف لاتے۔ ایسا وہ اس صورت میں کرتے تھے جب سرورق کے بارے میں کوئی بات سمجھانی ہوتی تھی۔ بصورتِ دیگر سرورق ایک چھینکے میں رکھ کر نیچے لٹکا دیتے تھے۔ سبزی بھی وہ یونہی خریدا کرتے تھے۔

چغتائی صاحب تکلفات سے بے نیاز تھے۔ وہ اکثر بنیان اور دھوتی پہنے ہوتے۔ آخر میں انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا، شاید آسانی کی خاطر، کہ سرورق کو کلر اسکیم نہیں لگاتے تھے۔ مجھے کہتے: ”ریاض، بلاک بن جائے تو چار چھ پروف نکال لانا، اسی وقت رنگ لگا دوں گا۔ تُو نے کون سا دور سے آنا ہے۔ سامنے ہی تو پریس ہے۔“ میں کہتا: ”جی بہتر۔“

اچھا چھپا ہوا سرورق دیکھ کر بے خوش ہوتے تھے اور دل کھول کر داد دیتے تھے۔ بلاک بننے میں بھی کوئی کسر رہ گئی ہوتی تو وہ فوراً بھانپ جاتے اور اس کی نشان دہی فرما دیتے۔”