علماء کرام: معاشرے میں احترام و ہدایت کے علمبردار

51 تعبيرية پیر 5 فروری‬‮ 4202 - (رات 9 بجکر 02 منٹ)

شیئر کریں:

علماء کرام: معاشرے میں احترام و ہدایت کے علمبردار بدقسمتی سے، ہم ایک ایسے معاشرے سے وابستہ ہیں جس میں سب سے آسان ہدف علماء کرام ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی طرف سے کوئی شدید ردعمل نہیں آتا، اور اگر آ بھی جائے تو وہ اتنا مؤثر نہیں ہوتا کہ مخالف کو معافی کے لئے مجبور کر سکے۔

جب کبھی ہمارے معاشرے میں کسی قوم یا قبیلے سے متعلق کوئی قابل اعتراض بات کہی جاتی ہے، تو زیادہ تر مواقع پر، بولنے والا فوراً معافی مانگ لیتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسے افراد ان لوگوں کے گھروں تک جا کر معافی مانگتے ہیں۔ مثال کے طور پر، حال ہی میں ایک سیاسی پارٹی کے سابق وزیر نے ایک جلسے کے دوران ایک خاص قوم کے بارے میں نامناسب تبصرہ کیا تھا، جس کا ردعمل بہت شدید تھا، اور 24 گھنٹے کے اندر اندر ان کا معافی نامہ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا تھا۔

اسی طرح، کچھ عرصہ پہلے، جب ایک دوسرے قبیلے کے بارے میں بات کی گئی تھی، تو انہوں نے احتجاج کرکے سڑکیں بلاک کر دی تھیں اور مطالبہ کیا کہ مخصوص شخص اپنے الفاظ واپس لے اور معافی مانگے۔

لیکن جب بات علماء کرام تک آتی ہے، تو بدقسمتی سے بہت سے لوگ اور اکثر سیاسی جماعتیں انہیں نشانہ بناتے ہیں۔ وہ اپنی تقریروں کو علماء کے غیبت کے بغیر نامکمل سمجھتے ہیں۔ کبھی کبھار تو عوام اپنے رہنماؤں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ کسی خاص عالم کا ذکر کیے بغیر نہ رہیں۔ نتیجتاً، وہ علماء کرام کے خلاف تنقید اور طعنہ زنی شروع کر دیتے ہیں۔ علماء کا ردعمل اکثر معافی مانگنے کی صورت میں ہوتا ہے، اور وہ اکثر ان لوگوں کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں، جو کہ ایک مثبت عمل ہے۔

علماء کرام ہمارے معاشرے کا ایک ستون ہیں۔ وہ دینی علوم کے ماہر ہوتے ہیں اور اپنی گہری فہم اور علم کے ذریعہ، وہ ہمیں صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کردار صرف مذہبی تعلیمات تک محدود نہیں بلکہ وہ معاشرتی اور اخلاقی رہنمائی کے لیے بھی ضروری ہوتے ہیں۔ علماء کرام کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کے اندر اتحاد و اخوت کو فروغ دیتے ہیں۔ وہ مختلف قسم کے سماجی اور معاشرتی مسائل پر اپنی رائے دے کر، لوگوں کو صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ کس طرح ہمارے اعمال، ہمارے ارد گرد کے لوگوں اور پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

علماء کرام کا ایک اور اہم کردار اختلافات کو حل کرنے میں بھی ہے۔ وہ اپنی دانائی اور علم کے ذریعے لوگوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو حل کرتے ہیں، اور ایسا ماحول تخلیق کرتے ہیں جہاں افہام و تفہیم کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ان کی یہ خصوصیت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کس طرح ہم مختلف رائے رکھنے کے باوجود بھی احترام و تفہیم کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھ سکتے ہیں۔

لہذا، علماء کرام کی معاشرے میں موجودگی اور ان کی رہنمائی نہایت اہم ہے۔ وہ ہمیں نہ صرف دینی بلکہ معاشرتی و اخلاقی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے اور ان کے ساتھ احترام کا معاملہ کرنا چاہیے۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اگر یہ لوگ اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری شکایت لے جائیں تو پھر اللہ کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے۔ ہمیں ہر حال میں صبر و تحمل کے ساتھ کام لینا چاہئے اور اختلاف کے باوجود احترام کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

آپ کا بھائی، عمر رازق بونیری